اسرار معراج یعنی واقعہ معراج میں پوشیدہ راز

 مفسرین  ، محدثین  اور سیرت نگاروں  نے واقعہ معراج النبی  کے کئی اسرار  رموز بیان کئے  ہیں ۔ فتح الباری ، روض الانف ،زرقانی  شرح مواہب ،  سیرت مصطفےٰ اور  سیرت النبی  وغیرہ  میں یہ ارشادات  موجود ہیں ۔ ذیل  میں ان  میں سے چند  پیش خدمت ہیں  :

  • قرآن وحدیث سے عرش کے بعد مخلوق کا وجود  ثابت نہیں  ۔ اس سے  یہ معلوم ہوتا  ہے کہ  کائنات  کی آخری  حد عرش ہے۔  عرش پر کائنات  ختم  ہوجاتی ہے ۔ حضور اکرم ﷺ کو معارج  کے سفر میں  عرش تک سیر کرائی گئی  اس سے  ختم نبوت  کی طرف اشارہ ملتا ہے  کیونکہ آپ ﷺ بھی دنیائے  رسالت  کی آخری  حد ہیں ، آپ  کے بعد  اب کوئی  نبی ورسول  نئی شریعت  لے کر آنے  والا نہیں ۔  نبوت  ورسالت  آپ پر ختم  ہے ۔
  • کوئی قوم اور امت  اپنے نبی  کے علوم  ومرتبے  تک رسائی  حاصل  نہیں کرسکتی ۔ حضور ﷺ نے معراج  کے موقع  پر زمین  اور اس سے اوپر  خلا میں موجود  ریت کے ذرات   کے برابر  ستاروں،  سیاروں  اور اس سے بھی  اوپر آسمانوں  اور عالم آخرت  تک کا سفر  چند  گھڑیوں  میں  طے کرلیا  ۔ سفر معراج سے ” دور سائنس ” کے  لوگوں کو یہ باور  کرانا مقصود  ہے کہتم  سب حضرت   محمد ﷺ  کے امتی  ہو ، تم چاند ، مریخ  اور اس سے بھی آگے  کے  جتنے  چاہے  سفر کرلو، لیکن امتی  ہونے کے ناطے  کبھی  تم اس  رفعت  اور بلندی  کو دور  سے بھی نہیں دیکھ  سکتے جو حضرت محمد ﷺ ڈیڑھ  سال پہلے  طے  کرچکے ہیں ، ذرا ہوش  کے ناخن لو ! حضرت محمد ﷺ کا یہ معجزہ  آج  پھر ترو تازہ  ہورہا ہے   اور تمہیں  حق کی  طرف بلا رہا ہے ۔  آؤ! اس حق کو سینے  سے لگالو !
  • مسجد حرام  سے مسجد اقصیٰ  تک کے سفر  میں یہ راز پوشیدہ  ہے کہ حضرت محمدﷺ اور آپ  کی امت دونوں  قبلوں  کےا نوار  وبرکات  سے  بہرہ ور ہوں گے  اور  اور دونوں قبلے  کے  قبضے  میں آئیں   گے اور   حضرات  انبیاء  بنی اسرائیل  کے کمالات  بھی آپ  میں جمع  کردیے جائیں گے ۔
  • اللہ جل شانہ  کی راہ  میں ذلت  ورسوائی  برداشت   کرنے کا صلہ   عزت اور رفعت  وترقی ہے۔ واقعہ معراج   سے پہلے  تک آپ ﷺ نے اسلام  کی خاطر  ہر طرح کی  تکلیف  برداشت کی ، شعب  ابی طالب  میں نظر  بندی  کے واقعہ  سے  تو یہ  تکلیف  اور صدمہ انتہا کو پہنچ  چکا   تھا۔ سفر  معراج  کے ذریعے  اللہ جل شانہ   نے آپ  کو اس تکلیف ومحںت  کا بدلہ عنایت  کیا اور  اتنی  بلندیوں  تک پہنچایا  کہ سردار ملائکہ  حضرت جبرئیل علیہ السلام  بھی پیچھے  رہ گئے ۔
  • حضرت آدم  علیہ السلام  سے معراج  میں ملاقات  ہونے میں اس  طرف اشارہ ہے  کہ ان  کی طرح  حضور ﷺ  کو بھی ہجرت  کی مشقت  اٹھانا پڑے  گی ، حضرت آدم علیہ السلام  کو ابلیس  کی وجہ سے  جنت  سے دنیا کی طرف ہجرت  کرنا پڑی۔
  •  دوسرے  آسمان  میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام  سے ملاقات  ہوئی ۔اس میں  یہ اشارہ  ہے کہ   جس طرح  ان کے خلاف  یہودیوں  نے مکروہ حیلے   اور جعل سازیاں کیں، حضور اکرم   ﷺ کے ساتھ  بھی یہودی ، دوغلے  پن اور حیلے  سازی سے باز نہیں آئیں گے ۔ لیکن  جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کو اللہ تعالیٰ  نے ان کے شر سے  محفوظ رکھا، حضور  اکرم ﷺ کی بھی  اللہ  جل شانہ  حفاظت  فرمائیں گے  ۔
  • تیسرے آسمان  میں حضور اکرم ﷺ کی ملاقات حضرت یوسف  علیہ السلام  سے ہوئی ، اس میں اس طرف  اشارہ  ہے کہ جس طرح  یوسف علیہ السلام  کو ان کے بھائیوں نے  کی طرف  سے سخت حالات  سے دو چار  ہونا پڑا لیکن آخر  میں اللہ  تعالیٰ  نے یوسف علیہ السلام   کو عزت  اور غلبہ  عطا کیا، اسی  طرح  حضور ﷺ بھی اپنے  قریشی بھائیوں   کی طرف  سے تکلیفیں اٹھائیں  گے اور بلآخر   غلبہ پائیں  گے  ۔
  • چوتھے  آسمان  میں حضرت  ادریس علیہ السلام  سے   ملاقات  میں اس طرف اشارہ  ہے  کہ آپ شاہان  عالم  کو دعوت اسلام  کے خطوط  روانہ  فرمائیں گے  اور جس طرح  ادریس علیہ السلام  کو بلند  مقام حاصل  ہوا ہے  حضور ﷺ کو  بھی رفعت  اور بلند   مرتبہ حاصل  ہوگا  اور بادشاہوں  کے دلوں  میں آپ کا رعب  بیٹھ جائے  گا۔
  • پانچویں  آسمان  میں حضرت ہارون علیہ السلام  سے ملاقات  ہوئی اس سے اس طرف  اشارہ   ہے کہ جس طرح  سامری  اور بچھڑے  کی پوجا  کر کے  مرتد  ہونے والے  جرم  ارتداد  میں قتل ہوئے  اسی طرح جنگ  بدر  میں 70  قریشی  سردار  قتل ہوئے  اور 70 قید   ہوئے  اور عریسین  ارتداد  کے جرم  میں قتل  ہوئے  ۔
  • حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات  میں اس طرف  اشارہ  ہے کہ جس طرح  ان کو جہاد  کا حکم عطا  ہوا اور جہاد  کی برکت  سے آپ کے  نائبین  نے ملک  شام  فتح  کیا اسی طرح  حضور  ﷺ کو بھی جہاد کا حکم  عنایت  کیاجائے گا اور آپ  کے نائبین  بھی ملک   شام فتح  کریں گے  ۔
  • ساتویں آسمان  میں حضرت  ابراہیم علیہ السلام  کی ملاقات  میں اس طرف   اشارہ  ہے کہ آپ  کو حج  بیت اللہ نصیب  ہوگا ۔
  • ساتویں آسمان سے سدرۃ المنتہیٰ تک کے سفر  سے فتح  مکہ  8ھ  کی طرف  اور  سدرۃ المنتہیٰ  سے مقام  صریف  الاقلام  تک کی سیر  سے غزوہ تبوک  9ھ  کی طرف  اور صریف الاقلام  سے مقام  قرب  ودنو تک سیر   سے اشارہ   ہے  آپ ﷺ  کی وفات  10ھ  کی طرف ۔ کیونکہ  مقام  قرب  ودنو میں حضور ﷺ کو دیدار  خداوندی  نصیب  ہوااور  اللہ جل شانہ  سے ہم کلام  ہونے ک اشرف   حاصل  ہوااور وفات  سے بھی  انسان  اپنے خالق حقیقی  سے جاملتا ہے ۔
  • معراج کے سفر  سے جب حضور ﷺ کی واپسی ہوئی  تو نہاجیت  معمولی وقت  گزرا تھا، بستر گرم  تھا۔ کواڑ ہل رہا تھا، یعنی  اتنا طویل  سفر  اتنے مختصر  ترین  وقت  میں طے  ہوگیا۔اس میں یہ اشارہ  اور راز ہے کہ دراصل  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کے استقبال  کے لیے  آسمان ،  زمین  اور کائنات   کے سارے نظام  کو روک  لیاتھا، جس  طرح  ملک کا صدر، وزیر اعظم  کسی شہر  کے دورے  پر جائیں  تو وہاں  کےسارے  نظام  کو روک لیاتھا  ، جس طرح  ملک کا صدر، وزیر اعظم  کسی شہر  کے دورے پر جائیں    وہاں   کے سارے   ٹریفک  کو ان  کے اعزاز واکرام  میں روک  لیاجاتا ہے  ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں