IUI, IVF کا علاج

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
سوال : باجی جان ایک مسلہ کا فوری جواب چاہیے- کیا اولاد نہ ہو رہی ہو تو میڈیکل میں جو طریقہ کار چل رہے ہیں مثلاً IUI
اور IVF وہ علاج کروایا جا سکتا ہے شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں-

الجواب باسم ملھم الصواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس وقت ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی مختلف صورتیں مروج اور معروف ہیں جس میں سے بنیادی تین صورتیں ہیں :

1 : اجنبی مرد اور عورت کے مادہ تولیدکی تلقیح سے تیار شدہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی-

2 : میاں بیوی کے مادہ تولید کی بیرونی طور پر تلقیح واختلاط سے تیار شدہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کو رحم مستعار ( یعنی کسی دوسری عورت کے رحم) میں داخل کرکے اس میں بقیہ افزائش کے بعد تولید-

3 : شوہر کے مادہ تولید کی تلقیح خود اس کی بیوی کے رحم میں یا میاں بیوی کے مادہ تولید کے اختلاط سے تیار شدہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کو اس بیوی کے رحم میں داخل کرکے اس میں بقیہ افزائش کے بعد تولید جس کو میڈیکل کی اصطلاح میں غالباً ( IVF) اور ( IVI) کہا جاتا ہے۔
ان تینوں صورتوں میں سے پہلی دو صورتیں اختیار کرنا جائز نہیں، البتہ تیسری صورت اس وقت اختیار کرنے کی گنجائش ہے، جب کہ کسی کے ہاں فطری طریقے سے اولاد نہ ہو رہی ہو، اور اس مقصد کے لیے عام طریقہ علاج سے بھی کوئی فائدہ حاصل نہ ہو، بشرطیکہ اس عمل میں درج ذیل شرعی محظورات سے بچنے کا اہتمام کیا جاۓ۔

1 : ہر مرحلے پر ستر وحجاب کا پورا پورا اہتمام کیا گیا ہو مثلا بیوی سے مادہ تولید لینے اور تلقیح کے بعد دوبارہ ڈالنے کا کام لیڈی ڈاکٹر سے لیا جاۓ –
2 : مرد سے مادہ تولید کا حصول اگر بذریعہ انجکشن ممکن ہو تو مرد ڈاکٹر بذریعہ انجکشن اسے حاصل کریں گے اور اگر انجکشن سے حصول ممکن نہ ہو، تو مشت زنی کے بجایے اپنی بیوی سے عزل کے ذریعے حاصل کیا جاۓ۔
3 : ہر ممکن وضروری تدابیر اختیار کی جاۓ، جس سے مادہ منویہ کی تبدیلی یا اختلاطِ نسب کا اندیشہ نہ ہو-
چونکہ بعض دفعہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے طلاق تک نوبت آجاتی ہے، اس لیے ضرورت کے پیش نظر بدرجۂ مجبوری ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے طریقۓ علاج کو اختیار کرنے کی گنجائش دی گئی ہے, لہذا صرف اس خواہش کے تحت کہ بیٹا پیدا ہو بیٹی نہ ہو، یا بیٹی ہو بیٹا نہ ہو مذکورہ طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں، کیونکہ بیٹا یا بیٹی کی خواہش اگر چہ جائز ہے، مگر یہ ضرورت میں داخل نہیں، لہذا اس مقصد کے لیے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا طریقہ استعمال کرنا نہیں ہے-
حوالہ جات :
1 : عن رویفع بن ثابت الانصاری قال : قال رسول اللہ ﷺ : “یوم حنین قال:لا یحل لامری یؤمن باللہ والاخر ان یسقی ماءہ زرع غیرہ۰

( ابوداؤد شریف : 2158 )

ترجمہ : حضرت رویفع بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بنی کریم ﷺ نے حنین والے دن فرمایا جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے حلال نہیں کہ دوسری کی کھیتی کو اپنا پانی دے-

2 : ولا يجوز لها أن تنظر ما بين سرتها إلى الركبة إلا عند الضرورة، بأن كانت قابلة فلا بأس لها أن تنظر إلى الفرج عند الولادة، وكذا لا بأس أن تنظر إليه لمعرفة البكارة في امرأة العنين، والجارية المشتراة على شرط البكارة، إذا اختصما.

وكذا إذا كان بها جرح أو فرح في موضع لا يحل للرجال النظر إليه، فلا بأس أن تداويها إذا علمت المداواة، فإن لم تعليم اتعلم ثم تداويها ” فإن لم توجد أمرأة تعلم المداواة ولا امرأة تتعلم وخيف عليها الهلاك أو بلاء أو وجع لا تحتمله ـ يداويها الرجل، لكن لا يكشف منها إلا موضع الجرح والفرح ويغض بصره ما استطاع۰
( بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع کتاب الاستحسان 6/499 )
3 :اذا عالج الرجل جاریتہ فیما دون الفرج فانزل فاخذت الجاریۃ ماءہ فی شیئ فاستدخلتہ فرجھا فی حدثان ذلک فعقلت الجاریۃ وولدت فالولد ولدہ والجاریۃ او ولد لہ۰
( ردالمحتار کتاب الطلاق،باب العدۃ: 5/213 )
4 :یجوز ان یستمنی بید زوجتہ او خادمتہ ۰
( ردالمحتار کتاب الحدود : 6/39 )
واللہ اعلم بالصواب
1 صفر 1444
29 اگست 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں