جھوٹ کہنے سے طلاق واقع ہونے کا کیا حکم ہے؟

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
السلام علیکم و رحمة الله و بركاته!
ایک رکشہ ڈرائیور نے 350بلاک اتارا اور بلاک لینے والے سے کرائے پر جھگڑا ہوا تو اس ڈرائیور نے کہا کہ اگر یہ بلاک 3500سے ایک بھی دم کم ہے تو میری بیوی کو طلاق اور یہ جملہ دو دفعہ دھرایا اور رکشہ ڈرائیور کا کہنا ہے کہ مجھے پتہ تھا کہ 350 ہیں لیکن بھول کر ایسا کہا تو کیا طلاق ہوگئی ؟:
تنقیح:3500 روپے کرایہ کا کہہ رہے ہیں یا 350 بلاک کا کہہ رہے ہیں. کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں میرا کرایہ 3500 بنتا ہے ایک بلاک کے 10روپے تو 350 بلاک کے 3500 ہو گے یعنی 350 کی بجائے اسکے منہ سے غلطی سے3500 بلاک نکل گیا ہے۔

جواب تنقیح: مطلقا اُس رکشہ پر 350 بلاک تھے جتنا لوڈ ہوتا ہے اس حساب سے کرایہ ہوتا ہے تو رکشہ والے نے کہا اگر یہ بلاک 3500 نہیں ہے تو میری بیوی کو طلاق اور دوسری دفعہ بھی یہ ہی لفظ دہرائے۔حالانکہ اسکو علم تھا کہ یہ 350 ہی بلاک ہیں۔
الجواب باسم ملہم الصواب
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
واضح رہے کہ اس طرح طلاق کے الفاظ کو کسی کام کے پائےجانے یا عدم وجود کے
کے ساتھ کے معلق کیا جائےاور وہ چیز پائی جائے تو نیت ہو یا نہ ہو طلاق واقع ہو جائے گی ۔

صورت مسئولہ ان کی بیوی کو دو طلاقیں واقع ہو گئیں ہیں۔ عدت کے دوران رجوع کرسکتے ہیں ۔عدت کی مدت گزر جانے کے پر تجدید نکاح کےبعد ساتھ رہنے کی گنجائش ہے۔آئندہ ایک طلاق کا اختیار ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
1 وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته إن دخلت الدار فأنت طالق”(الفتاوى الهندية، كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط، ج:1، ص:420، مكتبة دار الفكر)
2-“ومن فعل المحلوف عليه عامدا أو ناسيا أو مكرها فهو سواء وكذا من فعله وهو مغمى عليه أو مجنون كذا في السراج الوهاج”(الفتاوى الهندية، كتاب الإيمان،  الباب الأول في تفسيرها شرعا وركنها وشرطها وحكمها ، ج:2، ص:118، مكتبة دار الفكر)

فقط
واللہ اعلم بالصواب
30محرم 1444ھ
28 اگست 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں