خواتین پر عید کی نماز واجب نہیں ہے

سوال: کیا خواتین پر عید کی نماز واجب ہے ؟

فتویٰ نمبر:179

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب حامدا ًو مصلیاً

احناف کے ہاں عورتوں کا مسجد میں اور عید گاہ میں حاضر ہونا فی نفسہ ناجائز نہیں تھا بلکہ دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں فتنہ کی وجہ سے اسے منع کیا گیا ہےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کعبہ کو بنیادِ ابراہیمی پر لوگوں میں فساد برپا ہو جانے کے خوف سے نہ بنانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ کسی عمل کے کرنے سے اگر فتنہ کا خدشہ ہو تو اسے ترک کرنا اولی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت کے عین مطابق ہے لہذا احناف کا فتنہ کی وجہ سے عورتوں کو مسجد اور عید گاہ جانے سے منع کرنا بھی حضرت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی اور توہین نہیں بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مزاج شناس ہیں ان کی تصریح کے آئینے میں عین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت کے مطابق ہے اور رہی یہ بات کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں عیدین کا ذکر نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس کو فرض نمازوں کو مسجد میں ادا کرنے کے ساتھ بھی خاص کر لیا جائے تو جب مسجد جیسی مقدس جگہ پر فرض نماز کے لئے جائز نہیں تو عید گاہ میں اور عید کی نماز کے لئے جانے کی ممانعت تو اس حدیث سےبطریق اولی ثابت ہو رہی ہے اور اس کی مثال ایسی ہی ہو گی جیسے اللہ سبحانہ وتعالی نے ولا تقل لهما اف فرما کر والدین کے ساتھ ہر قسم کی بدسلوکی سے منع فرما دیا خواہ وہ’’أف‘‘ ہو یا نہ ہو۔ 

اور آج کل کے پرفتن دور کے بارے میں یہ نظریہ کہ آج کل عورتوں کے عید کی نماز کے لئے عید گاہ جانے سے کوئی فتنہ نہیں ہوتا خلافِ واقعہ ہے کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد :خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم .متفق عليه. مشكاة المصابيح (۲/ ۱۱۱۲)صراحۃً اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ سب سے اچھے اور نیک لوگ وہ تھے جو حضور ﷺ کے زمانہ میں موجود تھے اس کے بعد آنے والے نیکی اور تقوی میں اس سے کم اور اس کے بعد آنے والے اس سے کم تھے ،لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرے طبقے کے لوگوں میں ہی اس قدربے احتیاطی پھیل گئی تھی کہ اس وقت کی عورتوں کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ «لو أدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث النساء لمنعهن كما منعت نساء بني إسرائيل» قلت لعمرة: أومنعن؟ قالت: نعم صحيح البخاري (۱/ ۱۷۳) اس سے پتا چلتا ہے کہ دوسرے طبقہ جس کو خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے طبقہ کے بعد خیر القرون میں دوسرے نمبر پر شمار کیا اور ابھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو گزرے ہوئے تھوڑی ہی مدت گزری تھی ان میں بھی ایسی بے احتیاطی پھیل چکی تھی جو ممانعت کے لئے کافی تھی اسی طرح علامہ بدر الدین عینی ؒاس حدیث کے تحت عورتوں کے کے فسادات کا تذکرہ کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ :

لو شاهدت عائشة رضي الله تعالى عنهما ما أحدث نساء هذا الزمان 

من أنواع البدع والمنكرات لكانت أشد إنكارا ولا سيما نساء مصر فإن فيهن بدعا لا توصف ومنكرات لا تمنع.۔۔۔الی قوله۔۔ فانظر إلى ما قالت الصديقة رضي الله تعالى عنها من قولها لو أدرك رسول الله – صلى الله عليه وسلم – ما أحدثت النساء وليس بين هذا القول وبين وفاة النبي – صلى الله عليه وسلم – إلا مدة يسيرة على أن نساء ذلك الزمان ما أحدثن جزأ من ألف جزء مما أحدثت نساء هذا الزمان.

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (6/ 158)

علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پھیلنے والے فسادات کو نویں صدی ہجری کی عورتوں میں پھیلنے والے فسادات کا ہزارواں حصہ قرار دے رہے ہیں تو آج تو پندرھویں صدی ہے ، اس زمانہ کی عورتوں کی بے حیائی اور بے احتیاطی کی انتہا ہو چکی ہے ،پردہ جو قرآنی حکم تھا وہی رخصت ہو رہا ہے اور اس کی جگہ طرح طرح کے فیشن ایبل لباس آ چکے ہیں جن میں بعض عورتیں نیم برہنہ بھی نظر آتی ہیں تو آج کل کی عورتوں کے بارے میں یہ کہنا کیسے درست ہو گا کہ کبھی کوئی فتنہ نہیں ہوا جبکہ آجکل کبھی گھر سے باہر نہ نکلنے والی عورتوں میں بھی موبائل کے ذریعہ پھیلنے والے فسادات ہمارے سامنے ہیں جب گھر میں رہ کر یہ حالت ہے تو باہر نکل کر مردوں ساتھ مخلوط ہونے کی اجازت اگر دے دی جائے توفسادات کا کیا عالم ہو گا!اور فتنے کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی بہت ہی سنگین جرم واقع ہو بلکہ غیر محرم مردوں عورتوں کا ایک دوسرے کو دیکھنا بھی ایک بہت بڑا فتنہ اور نص قرآنی سے ممنوع ہے،اور اس کا عام طور پر واقع ہو نا روزمرہ کی زندگی میں مشاہَد ہے۔

اور اگر بالفرض کسی شہر میں کوئی فتنہ رونما نہیں ہوا تو صرف اس کو دیکھ کر آج کل کے پرفتن دور میں جواز کا حکم نہیں لگایا جا سکتا جبکہ فتنہ کے اسباب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے بھی بہت بڑھ چکے ہیں ، برائیاں غالب ہیں اور جان مال آبرو محفوظ نہیں ہے۔

نیز جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے کی عورتوں کی آزادی اور بے احتیاطی دیکھی اور فتنہ کا اندیشہ ہوا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حکم فرمایا کہ اب عورتیں مسجد میں نہ آیا کریں ۔

چنانچہ علامہ کاسانی ؒ فرماتے ہیں:

ولا يباح للشواب منهن الخروج إلى الجماعات، بدليل ما روي عن عمر – رضي الله عنه – أنه نهى الشواب عن الخروج؛ ولأن خروجهن إلى الجماعة سبب الفتنة، والفتنة حرام، وما أدى إلى الحرام فهو حرام. بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 157)

اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اس عمل پر کسی صحابی کی کوئی مخالفت منقول نہیں بلکہ متعدد صحابہ کرام جیسے حضرت عبد اللہ بن عمر ،عبد اللہ بن مسعود ار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع کرنا منقول ہے اور کسی صحابی کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مخالفت نہ کرنا بلکہ خود بھی عورتوں کو مسجد آنے سے منع کرنا بھی اجماع کی دلیل ہے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ : لَنْ تَجْتَمِعَ أُمَّتِي عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا، المعجم الكبير للطبراني (12/ 447) اس اجماع کی وجہ سے بھی عورتوں کو عید گاہ میں جانا جائز نہیں ۔

=========================================

قال الله تعالى:

قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (30) وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ ….الخ [النور: 29- 31]

=========================================

عمدة القاري (6/157)

وكان ابن عمر يقوم يحصب النساء يوم الجمعة يخرجهن من المسجد.

=========================================

الترغيب والترهيب للمنذري (1/ 142)

وَعَن أبي عَمْرو الشَّيْبَانِيّ أَنه رأى عبد الله يخرج النِّسَاء من الْمَسْجِد يَوْم الْجُمُعَة وَيَقُول اخرجن إِلَى بيوتكن خير لَكِن رَوَاهُ الطَّبَرَانِيّ فِي الْكَبِير بِإِسْنَاد لَا بَأْس بِهِ.

=========================================

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (3/ 305)

وأجابوا عن هذا الحديث بأن المفسدة في ذلك الزمن كانت مأمونة بخلاف اليوم، وقد صح عن عائشة، رضي الله تعالى عنها، أنها قالت: (لو رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث النساء بعده لمنعهن 

المساجد كما منعت نساء بني إسرائيل) .

=========================================

واللہ تعالی اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں