کیا عمل کرنے کے لیے صرف قرآن کافی ہے؟

﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۷۱﴾

سوال:-      کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ احادیث کی جو کتب اب موجود ہیں، وہ دور نبوی میں تو نہیں تھیں بلکہ کئی سو سال بعد لکھی گئیں لہذا وہ سب غیر مستند اور من گھڑت ہیں، عمل کرنے کے لیے صرف قرآن کافی ہے، کیا یہ دعوی درست ہے؟

جواب :-       واضح رہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ نبی کریم ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا ہے، ان میں سے کچھ آیات درج ذیل  ہیں:-

قال اللہ تعالیٰ

”یاایہاالذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول ”(النساء :٥٩)

”ومااتاکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتہوا”(الحشر :٧)

”وماینطق عن الہویٰ ان ہوالاوحی یوحیٰ”(النجم:٣)

”من یطع الرسول فقد اطاع اللہ”(النساء :٨١)

”وماارسلنامن رسول الالیطاع باذن اللہ”(النساء :٦٤)

ان آیات سے نبی کر یم ﷺکی احادیث کا حجت اور واجب العمل ہونا ثابت ہوتا ہے ۔نیز احادیث میں قرآن پاک سے ہٹ کر کوئی حکم نہیں دیا گیا ،بلکہ ان میں قرآن کریم کے احکام کی ہی تشریح و تفصیل ہےاور احادیث مبارکہ کے بغیر قرآن کوسمجھناناممکن ہے اس لیے احادیث کاانکارکرنا درحقیقت قرآن کاانکارکرنا ہے ۔

قال اللہ تعالیٰ

فلاوربک لایؤمنون حتیٰ یحکموک فیماشجربینہم ثم لایجدوا فی انفسہم حرجامماقضیت ویسلموا تسلیما”

(احکام القرآن :٣٠٢/٢)

وفی ہذہ الآیة دلالة علی من ردشیئا من اوامراللہ تعالی اواوامر رسول اللہ ﷺ فہوخارج من الاسلام سواء ردہ من جہة الشک فیہ اومن جہة ترک القبول والامتناع من التسلیم وذلک یوجب صحة ماذہب الیہ الصحابة فی حکمہم بارتداد من امتنع من اداء الزکاة وقتلہم وسبی ذراریہم لان اللہ تعالیٰ حکم بان من لم یسلم للنبی ﷺ قضاء ہ وحکمہ فلیس من اہل الایمان ”…

(تفسیرقرطبی:٢٦١/٥)

فردوہ الی اللہ ورسولہ ای ردوا ذلک الحکم الیٰ کتاب اللہ او الی الرسول بالسوال فی حیاتہ اوبالنظر فی سنتہ بعدوفاتہ ہذا قول مجاہد والاعمش وقتادة وہوالصحیح ومن لم یرہذا فاختل ایمانہ”…

(تفسیرقرطبی :٢٦٢/٥)

والی الرسول دلیل علی ان سنتہ یعمل بہاویتمثل مافیہا”…

(بخاری شریف :١٠٥٧/٢)

من اطاعنی فقداطاع اللہ ومن عصانی فقدعصی اللہ ومن اطاع امیری فقداطاعنی ومن عصی امیری فقدعصانی ”…

(الھندیة:٢٦٣/٢)

من لم یقرببعض الانبیاء علیہم الصلوة والسلام اولم یرض بسنة من سنن المرسلین فقدکفر”…

(الھندیة :٢٦٥/٢)

من انکرالمتواتر فقدکفر ”…

بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ “رسول اللہ ﷺکی سنت  فی نفسہ واجب العمل ضرور ہے لیکن ہم تک جو احادیث پہنچی ہیں وہ قابل اعتماد طریقے سے محفوظ نہیں رہ سکیں ،کیونکہ یہ تصنیفی کام تیسری صدی ہجری میں کیا گیا لہذا ہم ان بیانات پر اعتماد نہیں کرسکتے جو تیسری صدی ہجری سے قبل احاطہ تحریر میں نہیں آئے تھے”

ان کا یہ دعویٰ غلط ہے  اہل علم نے اپنی تحقیقات کے  ذریعے ثابت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے دور سے لے کر تیسری ہجری تک احادیث کی تصنیف و تالیف میں کوئی انقطاع نہیں تھا۔بلکہ اس درمیانی عرصہ میں بھی بے شمار تصانیف ہوئیں اوراحادیث کی حفاظت  کا خوب کام ہوا ہے۔چنانچہ ہمام ابن منبہ (م101ھ) جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ(م 59ھ) کے شاگرد ہیں،ان  کی طرف منسوب ”صحیفہ ہمام ابن منبہ“ قرن اول میں کتابت حدیث کی بہت بڑی شہادت ہے۔

ڈاکٹر محمد مصطفی کاظمی نے اپنے عربی مقالے ” دراسات فی الحدیث النبوی وتاریخ تدوینہ“ میں حدیث نبوی کی جمع و تدوین کی تاریخ کے تفصیلی بیان کے ساتھ (52) صحابہ کرام اور (252) تابعین عظام کے صحائف کا ذکر کیا ہے ۔

نیز جب نبی کریم ﷺ کی پیغمبرانہ حاکمیت کو اول الذکر آیات کی وجہ سے  ہر زمانے میں واجب التعمیل  مان لیا گیا  اور ہر عہد کے مسلمانوں پر اس کی پیروی لازم ہو نے کو تسلیم کرلیا گیا تو اس کے بعد  یہ کہنا  کہ سنت کے ناقابل اعتماد ہونے کی بنا پر ہم آپ کی اطاعت نہیں کرسکتے،غلط ہے کیونکہ  اس کا نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالی نے ہم پر پیغمبر کی اطاعت تو واجب کردی لیکن عملی طور پر اس اطاعت کو قابل عمل نہیں بنایا۔ حالانکہ  ”لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا “

معلوم ہوا  کہ اگر اللہ نے ہم پر سنت کی پیروی لازم کی ہے تو لازما اس نے ہمارے لیے اسے محفوظ شکل میں باقی رکھا ہوگا۔

خلاصہ کلام : مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ کہنا کہ احادیث کی کتابیں تین سو سال بعد تصنیف کی گئی  ہیں ،یہ صرف منکرینِ حدیث کا پروپیگنڈہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اوردیگرصحابہ رضی اللہ عنہم نے احادیث کی حفاظت کا خاص اہتمام کیا، پھر تابعین رحمہم اللہ کے دور میں کئی کتب لکھی گئیں ،موطا امام مالک اب بھی موجود ہے جو صرف 100سال بعد لکھی گئی ان کی عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کی روایت میں صرف امام نافع راوی ہیں۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی روایت میں امام زہری راوی ہیں، غرض موطا میں سینکڑوں سندیں ایسی ہیں جن میں صحابہ اور امام مالک کے درمیان ایک یا دو راوی ہیں اور وہ زبردست امام تھے۔ امام بخاری سے پہلے کی کتب صحیفہ ہمام ،صحیفہ صادقہ، مسند احمد، مسند حمیدی، موطا مالک ،مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبدالرزاق ، موطا محمد ،مسند شافعی آج بھی موجود ہیں دیگر ائمہ نے بھی درس و تدریس کا ایسا اہتمام کیا ہوا تھا کہ کوئی کذاب حدیث گھڑ کر احادیث صحیحہ میں شامل نہ کر سکتا تھا۔ لہٰذا احادیث آج بھی حجت ہیں اور ان پر عمل واجب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں