کرایہ پرلی ہوئی چیز آگے زیادہ کرائے پر دینا

سوال:ایک شخص سال بھر کے لیے دکان ماہانہ ایک ہزار کرایہ پر لے اور دوران سال کچھ مہینے کے لیے اس کو دکان کی ضرورت نہ ہو تو اس وقت میں کیا یہ شخص دوسرے شخص کو دکان 1500 روپے کرایہ پر دے تو ایسا کرنا شرعا درست ہے؟ یعنی کرایہ  پر لی ہوئی چیز کو آگے کرایہ پر دینا اور زیادہ کرایہ پر دینے کا کیا  حکم ہے؟

                                                                                                سائل: محمد ارسلان

الجواب حامدا ومصلیا

واضح رہے کہ کرایہ پر لی ہوئی چیز کو آگے کرایہ پر دینا شرعا جائز  ہے بشرطیکہ اصل مالک نے آگے کرایہ پر  دینے سے منع  نہ کیا ہو اور  کسی ایسے شخص کو دکان کرایہ پر نہ دے جس کے کام سے دکان کی تعمیر کو نقصان ہو  البتہ  کرائے دار کا  کسی دوسرے شخص کو متعین کرایہ سے زیادہ رقم  پرکرائے پر دینا    اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ کرایہ دار نے اس کرایہ کے مکان  میں کچھ اضافی کام (مثلا رنگ یا    اس میں دیگر تعمیراتی کام وغیرہ ) کرایا ہو لیکن اگر اس نے دکان میں کچھ بھی کام نہیں کروایا تو اصل کرایہ سے زائد کرایہ لینا  اس کے لئے جائز نہیں ہوگا اگر لے گا تو  اس اضافی رقم کو صدقہ کرنا لازم ہوگا۔

الفتاوى الهندية (4/ 425)

“وإذا استأجر دارا وقبضها ثم آجرها فإنه يجوز إن آجرها بمثل ما استأجرها أو أقل، وإن آجرها بأكثر مما استأجرها فهي جائزة أيضا إلا إنه إن كانت الأجرة الثانية من جنس الأجرة الأولى فإن الزيادة لا تطيب له ويتصدق بها، وإن كانت من خلاف جنسها طابت له الزيادة ولو زاد في الدار زيادة كما لو وتد فيها وتدا أو حفر فيها بئرا أو طينا أو أصلح أبوابها أو شيئا من حوائطها طابت له الزيادة، وأما الكنس فإنه لا يكون زيادة وله أن يؤاجرها من شاء إلا الحداد والقصار والطحان وما أشبه ذلك مما يضر بالبناء ويوهنه هكذا في السراج الوهاج”

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 29)

ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا آجرها بخلاف الجنس أو أصلح فيها شيئا، (قوله بخلاف الجنس) أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة. (قوله أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد من عنده حملا لأمره على الصلاح كما في المبسوط”

المصنف لعبد الرزاق ۸/۲۱

“اخبرنا الثوری وسالہ عن الرجل یستاجر ذلک ثم یؤاجرہ باکثر من ذلک فقال اخبرنی عبیدۃ عن ابراہیم وحصین عن الشعبی ورجل عن مجاھد انھم کانوا یکرھونہ الا ان یحدث فیہ عملا”

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (7/ 429)

“قال محمد رحمه الله: وللمستأجر أن يؤاجر البيت المستأجر من غيره، فالأصل عندنا: أن المستأجر يملك الإجارة فيما لا يتفاوت الناس في الانتفاع به؛ وهذا لأن الإجارة لتمليك المنفعة والمستأجر في حق المنفعة قام مقام الآجر، وكما صحت الإجارة من الآجر تصح من المستأجر أيضاً فإن أجره بأكثر مما استأجره به من جنس ذلك ولم يزد في الدار شيء ولا أجر معه شيئاً آخر من ماله مما يجوز عند الإجارة عليه، لا تطيب له الزيادة عند علمائنا رحمهم الله”

فتاوی محمودیہ 16/605

“اگر اس شخص نے اس جائیداد میں کوئی تصرف نہیں کیا۔۔۔اسی طرح دوسرے کو دے دی تب تو یہ منافع ناجائز ہے اس کا تصدق واجب ہے اگر اس جائیداد کی کوئی اصلاح کی یا مرمت کی ہے اور پھر دوسرے شخص کو دی ہے تو یہ منافع جائز ہے،اس کے لئے یہ ناجائز ہے کہ وہ جائیداد کسی ایسے آدمی کو کرایہ پر دے جس کے رہنے اور کام کرنے سے اس جائیداد کو نقصان پہونچے”

واللہ اعلم بالصواب

حنظلہ عمیر بن عمیر رشید

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۱۰/۱۰/۱۴۴۱ھ

2020/6/2ء

اپنا تبصرہ بھیجیں