سوال: پلے اسٹور پر مرکز ایپلیکیشن ہے ،جس کے ذریعے مختلف چیزیں مثلاً کپڑے،اسسریز وغیرہ خریدے بغیر اپنا پرافٹ رکھ کر دوسروں کو بیچ سکتے ہیں۔مثال کے طور پر ایک سوٹ کی قیمت 1000روپے ڈیلیوری چارجز سمیت ہو تو آپ اسے 1500روپے یا حسب منشاء پرافٹ کے ساتھ بیچ سکتے ہیں،خریدار نے کوئی چیز بھی کسٹمر کو خرید کر نہیں دینی،بلکہ مرکز والوں سے اپنا پرافٹ ذکر کرتے ہوئے کسٹمر کے لیے صرف آرڈر کرنا ہے،اور مرکز کسٹمر تک خود وہ سوٹ پہنچا دے گا اور اس کی قیمت وصول کر لے گا،اس کے بعد مرکز آپ کے اکاؤنٹ میں آپ کا متعینہ پرافٹ بھیج دے گا۔
برائے مہربانی اس میں رہنمائی فرما دیجیے کہ کیا یہ کاروبار جائز ہے؟
الجواب باسم ملھم الصواب
واضح رہے کہ جب تک کوئی چیز خریدنے کے بعد قبضے میں نہ آ جائے اس وقت تک اسے آگے بیچنا جائز نہیں ہوتا ؛لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ آن لائن اپنے کسٹمر کو بیچ رہے ہیں تو آپ کا اس طرح خریدے بغیر بیچنا جائز نہیں ہے؛ تاہم اس کے متبادل کے طور پہ یہ صورت اپنائی جا سکتی ہے کہ آپ کسٹمر کو بیچیں نہیں ،بلکہ وعدہ بیع کر لیں اور پھر خریدنے کے بعد پرافٹ رکھ کر اسے آگے بیچ دیں، لیکن اس میں قبضہ بھی ضروری ہوگا اور اگر قبضہ نہ ہوسکتا ہو اور وعدہ بیع کی بھی صورت نہ اپنائی جاسکتی ہو تو پھر دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ کسی اور کے وکیل بن کر بیچیں مثلاً آپ نے جس دکان دار سےخریدا آپ اس سے معاہدہ کر لیں کہ میں آپ کی چیز اتنے میں بکواؤں گا ،آپ سے اس پر اتنا پرافٹ لوں گا؛اس طریقے سے آپ ان کے ایجنٹ اور نائب بن جائیں گے اور ایجنٹ کے لیے نفع مقرر کر کے آگے بیچنا جائز ہوتا ہے؛ لہذا آپ کے لیے اجرت جائز ہوگی۔
=============
حوالہ جات
1۔عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ: “نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَبِيعَ مَا لَيْسَ عِنْدِي“۔
(سنن الترمذي:رقم الحديث: 1248)
ترجمہ:حضرت حکیم بن حزام رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے مجھے ایسی چیز کے فروخت کرنے سے منع فرمایا جو میرے پاس موجود نہ ہو”۔
2۔”وفيه أن بيع ما ليس في ملكه باطل كما تقدم لأنه بيع المعدوم، والمعدوم ليس بمال فينبغي أن يكون بيعه باطلا“۔
(رد المحتار على الدر المختار:7 /248)
3۔(ومنھا) وھو شرط انعقاد البيع للباىٔع أن يكون مملوكا للباىٔع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد۔
(بداىٔع الصناىٔع: 147/5)
4۔”لايجوز بيع المنقول قبل القبض؛ لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام: «إذا ابتعت طعامًا فلاتبعه حتى تستوفيه» رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا.”
( تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق:80/4)
5۔”(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى۔ وفي الفاسدة أجر المثل۔۔۔لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة۔“
(درر الحکام فی شرح مجلة الاحكام:573/3)
واللّٰہ اعلم بالصواب
28 جمادی الأولی 1444ھ
23دسمبر 2022ء