مال ضائع ہونے کے بعد حج کی فرضیت کا حکم

سوال : میرے پاس زیوروچار تولے کا سیٹ ،تین تولے کے کڑے والدین کی طرف سے اور پانچ تولے کا سیٹ دو ڈھائی تولے کے کڑے سسرال کے طرف سے اور دو تولے تک چھوٹے موٹے سامان دونوں طرف؛ تو مجھ پر زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ حج بھی فرض ہوگیا تھا ،لیکن اب میرے پاس زیورات ختم ہوگیے ہیں ،تو کیا مجھ پر اب بھی حج فرض ہے؟
الجواب باسم‌‌ ملھم الصواب
اگر آپ کے پاس مذکورہ زیورات حج کے مہینوں میں موجود تھے، لیکن حج کے مہینوں کے گزرنے کے بعد ضائع ہوئے پھر آپ پر اب بھی حج فرض ہے اور اگر ایامِ حج کے علاوہ میں زیورات موجود رہے، لیکن حج کے مہینوں سے پہلے مال ضائع ہوگیا تو پھر حج فرض نہیں ہوا۔
_____________________________________________
حوالہ جات :
1 : قالوا لو لم یحج اتلف ما وسعہ ان یستقرض و یحج ولو غیر قادر علی وفاتہ ویرجی ان لا یواخذہ اللہ بذالک. (در مختار: 2/457 )
2 : بخلاف ما لو ملكه مسلماً فلم يحج حتى افتقر حيث يتقرر وجوبه ديناً في ذمته، فتح، وهو ظاهر على القول بالفورية لا التراخي، نهر. قلت: وفيه نظر ؛ لأن على القول بالتراخي يتحقق الوجوب من أول سني الإمكان، ولكنه يتخير في أدائه فيه أو بعده، كما في الصلاة تجب بأول الوقت موسعاً، وإلا لزم أن لا يتحقق الوجوب إلا قبيل الموت، وأن لا يجب الإحجاج على من كان صحيحاً ثم مرض أو عمي، وأن لا يأثم المفرط بالتأخير إذا مات قبل الأداء، وكل ذلك خلاف الإجماع، فتدبر.” ( رد المحتار ،كتاب الحج، 2/458 )
3 : اگر اس کے پاس مال بقدر حج ایسے وقت میں تھا ،کہ لوگ حج کو نہیں جارہے تھے، بلکہ ابھی وقت حج میں دیر تھی اور وقت حج آنے سے پہلے ہی وہ مال ضائع ہوگیا، تو اس کے ذمہ حج فرض نہیں ،اگر زمانۂ حج میں مال تھا اور اس نے ارادہ کرلیا تھا مگر بغیر اس کے اختیار کے مال ضائع ہوگیا ،تب بھی اس کے ذمہ حج نہیں اگر اس نے خود اختیار سے ایسی جگہ خرچ کر دیا جہاں شریعت کی طرف سے خرچ کرنے کا امر نہیں تھا، تو اس کے ذمہ حج لازم ہوگا۔ (فتاویٰ محمدیہ: 15/354)
واللہ اعلم بالصواب
13 رجب 1444
5 فروری 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں