مرنے سے پہلے اعضاء ہبہ کی وصیت کرنا

فتویٰ نمبر:1096

سوال: السلام علیکم!

مجھے یہ سوال پوچھنا تھا کہ اگر کوئی شخص مرنے سے پہلے یہ وصیت کرے کہ میرے مرنے کے بعد میرے اعضا نکال لیے جائیں تاکہ کسی انسان کے کام آسکیں تو کیا یہ جائز ہوگا؟

الجواب بعون الملک الوھاب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!

اعضاء عطیہ کرنے کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں: کچھ صورتیں زندگی میں عطیہ کرنے کی ہوتی ہیں اور کچھ زندگی میں ہمدردی کے جذبے کے ساتھ وصیت کے طور پر ہوتی ہیں کہ ہمارے مرنے کے بعد اعضاء نکال لیے جائیں اور کسی کو دے دیے جائیں، ایسی وصیت کرنا شرعا وقانونا جائز نہیں ، کیونکہ انسان اپنے جسم کا مالک نہیں اور نہ اعضائے انسانی مال کی طرح ہیں کہ اس کو ہبہ کرنا یا عطیہ کرنا جائز ہو; اسی لیے علماء کے نزدیک اعضا کی خریدو فروخت کرنا جائز نہیں ،لہذا آپ کے ذکر کردہ صورت کے مطابق اعضا کے عطیے کی وصیت جائز نہیں نہ اس پر عمل کرنا درست ہے ، اگر اس طرح کی وصیت کی اجازت ہوجائے تو پھر انسان کی اہانت وتباہی کا نہ بند ہونے والا دروازہ کھل جائے گا ۔

الحجۃ علی ما قلنا : 

(۱) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ومنہا أن یکون مالاً متقوماً فلا تجوز ہبۃ ما لیس بمال أصلاً ۔۔۔۔۔۔ ومنہا أن یکون مملوکاً للواہب فلا تجوز ہبۃ مال الغیر بغیر إذنہ ۔ (۴/۳۷۴)

ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : ومنہا أن یکون مالا أو متعلقاً بالمال لأن الوصیۃ إیجاب الملک أو إیجاب ما یتعلق بالملک ۔ ۔ ۔ ۔ فلا تصح الوصیۃ بالمیتۃ والدم لأنہما لیسا بمال في حق أحد ۔ (۶/۴۵۷ ، کتاب الوصایا)

(۲) ما في ’’ شرح کتاب السیر الکبیر ‘‘ : الآدمي محترم بعد موتہ علی ما کان علیہ في حیاتہ فکما یحرم التداوي بشيء من الآدمي الحي إکراماً لہ فکذلک لا یجوز التداوي بعظم المیت ، قال رسول اللّٰہ ﷺ : ’’ کسر عظم المیت ککسر عظم الحيّ ‘‘ ۔ 

(۱/۹۲ ، باب دواء الجراحۃ)

استعمال جزء منفصل عن غیرہ من بنی آدم اھانۃ بذلک العبد والآدمی بجمیع اجزائہ مکرم۔ (بدائع الصنائع :۱۳۲/۵)

واللہ اعلم 

بنت عبدالباطن عفی عنھا

۲۴ جمادی الثانی ۱۴۳۹ھ

۱۵ مارچ ۲۰۱۸ ع

اپنا تبصرہ بھیجیں