مروجہ قضائے عمری کی حقیقت

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

سوال:رمضان المبارک میں یہ بات بہت سے لوگوں سے سنی کہ اگر کسی کے ذمہ بہت سی قضا نمازیں ہوں اور وہ جمعۃ الوداع کو قضائے عمری کی دو رکعت پڑھ لے تو اس کے ذمہ کوئی  نماز قضا نہیں رہتی, اس کی کیا حقیقت ہے؟

بنت اکرم حیات

میانوالی

فتویٰ نمبر:272

الجواب حامدۃ ومصلیۃ 

رمضان شریف کے آخری جمعہ میں قضائے عمری کی دو رکعت پڑھنا ثابت نہیں ہے بلکہ یہ قبیح بدعت ہے. اس کے بارے میں جو روایات ہیں ان روایات کو محدیثین قضاء عمری کا نام دیتے ہیں, اور انہیں موضوع (من گھڑت) قرار دیتے ہیں.

“من قضی صلاۃ من الفرائض فی آخر جمعۃ من شھر رمضان کان ذلک جابراً لکل صلاۃ فائتہ فی عمرہ الی سبعین سنۃ” باطل قطعا لانہ مناقض لاجماع علی ان شیاء من العبادت لا یقوم مقام فائتہ سنوات”

ترجمہ:

جو شخص رمضان کے آخری جمعے میں ایک فرض نماز قضا پڑھ لے تو ستر سال تک اس کی عمر میں جتنی نمازیں چھوٹی ہوں, ان سب کی تلافی ہو جاتی ہے”یہ روایت قطعی طور پر باطل ہے, اس لیے کہ یہ حدیث اجماع کے خلاف ہے, اجماع اس پر ہے کہ کوئ بھی عبادت سالہا سال کی چھوٹی ہوئ نمازوں کے قائم مقام نہیں ہوسکتی”

(الموضوعات الکبری :ص352)

“من صلی فی آخر جمعۃ من رمضان الخمس الصلوات المفروضۃ فی الیوم والیلۃ قضت عنہ ماأخل بہ من صلاۃ سنۃ “ھذا موضوع لا اشکال فیہ”

ترجمہ:جو شخص رمضان کے آخری جمعے میں دن رات کی پانچ فرض نمازیں پڑھ لے, ان سے اس کے سال بھر کی جتنی نمازوں میں خلل رہا ہو, ان سب کی قضا ہوجاتی ہے. “کسی شک کے بغیر موضوع(من گھڑت) ہے. “(الفوائد المجموعہ للشوکانی: ص 54/1)

واللہ تعالی اعلم بالصواب 

بنت خالد محمود

دارالافتاء صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر.

20ربیع الثانی 1439ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں