جھوٹی قسم کھانے والے پہ کیا وبال آئے گا؟

سوال : اگر کوئی شخص دوسرے پر کوئی الزام لگائے اور اس پر جھگڑے میں یہ طے ہو کہ قرآن کریم پر ہاتھ رکھ کر دونوں فریق قسم کھائیں گے تو جو شخص جھوٹی قسم کھاتا ہے اس پر کیا وبال ہوتا ہے؟
کیا قرآن پر ہاتھ رکھ کرجھوٹی قسم کھانے والے پر جلد تباہی اور زوال آتا ہے جیسا کہ عام طور پر مشہور ہے ؟

الجواب باسم ملھم الصواب
واضح رہے کہ اگر کسی نے قرآن پاک اٹھا کر جھوٹی قسم کھائی، تو یہ شخص نہایت گناہ گار ہوگا،
احادیث مبارکہ میں جھوٹی قسم کو ،اللہ کی رحمت سے دوری کاسبب،اللہ کے غضب کا باعث اور جھنم کے عذاب کا باعث قرار دیا ہے اس سے بڑھ کے اور کیا وبال ہوگا؟
لہذا دنیا کے معمولی فائدے کی خاطر آخرت کا عذاب مول لینا کوئی عقلمندی نہیں،البتہ ایسی جھوٹی قسم کھانے پر کوئی کفارہ تو نہیں ،تاہم توبہ کرنا،کثرت سے استغفار کرنا ،اور اگر کسی کا حق مارا ہے تو اسے واپس کرنا لازم اور ضروری ہے، اور سچی توبہ کرنے سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے اس گناہ کو معاف فرما دے گا۔
=================
حوالہ جات :

1 ۔ عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ” ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة، ولا ينظر إليهم، ولا يزكيهم ولهم عذاب اليم “، قال: فقراها رسول الله صلى الله عليه وسلم: ثلاث مرارا، قال ابو ذر: خابوا، وخسروا، من هم يا رسول الله؟ قال: ” المسبل، والمنان، والمنفق سلعته بالحلف الكاذب “.

ترجمہ:
‏‏‏‏ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ بات نہ کرے گا قیامت کے دن، نہ ان کی طرف دیکھے گا (رحمت کی نگاہ سے) نہ ان کو پاک کرے گا (گناہوں سے) اور ان کو دکھ کا عذاب ہو گا۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ فرمایا تو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: برباد ہو گئے، وہ لوگ اور نقصان میں پڑے، وہ کون ہیں یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک تو لٹکانے والا ازار کا، دوسرے احسان کر کے اس کو جتانے والا، تیسرے جھوٹی قسم کھا کر اپنے مال کی نکالنے والا۔“۔

2 ۔ ” عن الأشعث بنِ قيسٍ قال: كان بيني وبين رجُلٍ خُصومةٌ في بئرٍ، فاخْتصمْنا إلى رسولِ الله صلى الله عليه وسلم فقال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم: “شاهِداك، أو يمينهُ”، قلتُ: إذًا يحلِف ولا يُبالي! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “مَن حَلف على يمينِ صَبْرٍ، يَقْتَطِعُ بها مالَ امرىءٍ مُسلمٍ، هو فيها فاجِرٌ، لَقِيَ الله وهو عليه غضبانُ”.  
(صحيح مسلم :354/1)۔

ترجمہ :
“اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے اور ایک شخص کے درمیان ایک کنویں کو لے کر جھگڑا تھا، چنانچہ ہم دونوں اس مقدمے کے فیصلے کے لیے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”تم دو گواہ لاؤ، ورنہ اس کی قسم پر فیصلہ ہوگا“۔ میں نے عرض کیا: وہ تو قسم کھالے گا اور کچھ پروا نہ کرے گا! آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص جھوٹی قسم اس لیے کھائے کہ اس کے ذریعے کسی مسلمان کے مال کو ہتھیا لے اور اس کی نیت بری ہو، تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ اس پر نہایت ہی غضبناک ہو گا“۔  

3 ۔وعن أبي طَرِيف عدي بن حاتم -رضي الله عنه- مرفوعاً: «مَن حَلَف على يَمِين ثم رأى أَتقَى لله مِنها فَلْيَأت التَّقوَى۔
( صحیح مسلم : حدیث نمبر1651)۔

ترجمہ : حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے “جو کسی بات پر قسم کھا بیٹھے اور اس کے خلاف کرنے میں بہتری جانیں تو اس کام کو کرلے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے‘‘۔

4۔ ”ولایقسم لغیر اللہ تعالی کالنبی والقرآن والکعبة قال الکمال ولا یخفی ان الحلف بالقرآن الآن متعارف فیکون یمینا” (الدرالمختار مع رد المحتار :کتاب الایمان، 485/5)۔
واللہ اعلم بالصواب۔

28/01/1444
27/08/2022

اپنا تبصرہ بھیجیں