سابقین اولین

فرمان الٰہی

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٠٠﴾

ترجمہ: اورمہاجرین وانصار میں سے وہ اولین لوگ جوکہ (ہجرت کرنےوالے اورایمان لانے والے) دوسروں پرسبقت لےگئے،اوروہ دوسرےلوگ جنہوں نے ان سابقین کی اخلاص کےساتھ پیروی کی،اللہ ان سب سے راضی ہوگیااور وہ سب اللہ سےراضی ہوگئے اوراللہ نے ان کےلیے ایسی جنتیں تیارکی ہیں جن کےنیچے نہریں جاری ہوں گی،ان میں وہ ہمیشہ کےلیے رہیں گے یہی عظیم کامیابی ہے۔” (سورۃ التوبہ:100)

حضرت ابن عمر رضی اللہ علیہ فرماتےہیں :

ترجمہ:اگرکوئی شخص اقتداء کرناچاہتاہوتووہ اصحاب محمدرضی اللہ عنہ کی سنت پرچلے جوکہ فوت ہوچکےہیں،وہ امت کےسب سے بہترین لوگ تھے،وہ سب سےزیادہ پاکیزہ دل والے،سب سےزیادہ گہرے علم والے اورسب سےکم تکلف کرنےوالےتھے،لہذاتم انہی کےطورطریقوں کواپناؤ،کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺکےساتھی تھے اورصراط مستقیم پرچلنےوالے تھے۔” (حلیۃ الاولیاء :1/305،306)

سورۃ التوبہ آیت 100 میں اللہ تعالیٰ نے تین قسم کےلوگوں کاذکرفرمایاہے

1۔ مہاجرین : جنہوں نے دین کی خاطراپنےآبائی وطن اورمال ومتاع کوچھوڑااورمدینہ ہجرت کی۔

2۔انصارمدینہ :جنہوں نےرسول اللہ ﷺاورمہاجرصحابہ رضی اللہ عنہ کی مددکی ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نےمہاجرین وانصارمیں سےان حضرات کاتذکرہ فرمایاجوہجرت کرنےاورایمان لانےمیں سبقت لےگئے  .

3۔وہ حضرات جنہوں  نے ان سابقین اولین کی اخلاص ومحبت سےپیروی کی ،ان میں متاخرین صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ،تابعین اورقیامت تک آنےوالے تمام لوگ شامل ہیں جوان کےپیروکار رہیں گے۔

اللہ تعالیٰ نےصحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے رضامندی اورجنت کااعلان فرمایااوران کےپیروکار وں کےلیےبھی یہی انعام ہےلیکن شرط یہ ہےکہ اخلاص ومحبت سے پیروی کریں ۔

سابقین واولین سےمتعلق کئی اقوال مختلفہ سامنےآئےہیں :

سعیدبن مسیب ؒاورقتادہ کاقول ہے:

وہ صحابہ رضوان اللہ اجمعین نےدونوں قبلوں کی طرف نمازپڑھی یعنی تحویل قبلہ سےپہلےجومسلمان ہوچکےتھے وہ سابقین واولین ہیں ۔

حضرت عطاء بن ابی رباح نےفرمایا:

سابقین واولین وہ صحابہ ہیں جوغزوہ بدرمیں شریک ہوئے ۔

حضرت شعبی ؒ نےفرمایا:

جوصحابہ حدیبیہ کی بیعت رضوان میں شریک ہوئے ” ہرقول کےمطابق باقی صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ،مہاجرہوں یاانصارسابقین اولین کےبعد دوسرے درجےمیں ہیں ۔ ( مظہری ۔قرطبی )

ایمان لانے والے سابقین واولین :

سب سے پہلے عورتوں میں آپؐ کی اہلیہ محترمہ صدیقہ خدیجۃ الکبریٰ نےاسلام قبول کیااوربروزدوشنبہ شام کےوقت آپ ﷺکےہمراہ نمازپڑھی پھر ورقہ بن نوفل مشرف باسلام ہوئے ،بچوں میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ  نے دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔اس کے بعدآپ ﷺ کےآزاد کردہ غلام حضرت زیدبن حارثہ اسلام لائے ۔

حضرت ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ نے آزادلوگوں میں سب سےپہلےاسلام قبول کیا،پھراسلام پراپناسب کچھ قربان کردیا۔

رسول اللہ ﷺنےفرمایا:

“میراساتھ نبھانے اورمال خرچ کرنے میں مجھ پرسب سے زیادہ احسان ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کاہے۔اگرمیں اللہ تعالیٰ کےعلاوہ کسی کوخلیل بنانے والاہوتاتوابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ کوبناتا،لیکن اسلامی بھائی چارہ  اوراس کی محبت ہی کافی ہے ۔مسجدکےتمام دروازوں کوبندرکھاجائے سوائے ابوبکر کے ” (بخاری 3654)

حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ محض اللہ کی رضاکےلیے غلاموں کوآزادکراتےتھے ،اسلام میں داخل ہوتے ہی اسلام کی نشرواشاعت وتبلیغ میں مصروف ہوگئے ۔آپ رضی اللہ عنہ مکہ کے ذی اثرلوگوں میں سے تھے ۔آپ رضی اللہ عنہ  نے لوگوں پراپنےاسلام کوظاہر کیااوراپنے احباب کودین میں داخل ہونے کی دعوت دی ،ہمیشہ نبی کریم ﷺ کادفاع کرتے رہے  حتیٰ کہ سفر ہجرت میں بھی آپ ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہ کوہی اپنارفیق سفربنایا ۔

نبی کریم ﷺ نے آپ کوبشارت دی کہ آپ رضی اللہ عنہ کو جنت کے ہردروازے سے پکاراجائے گاکہ آپ جنت میں آجائیں  ( بخاری : 3666)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام اعمال خیر میں دوسروں سے سبقت لے جاتے

چشم احمد ابوبکر ے زرہ

وزیکے تصدیق صدیق آمدہ

حضرت علی کرم اللہ وجہہ:

حضرت علی رضی اللہ عنہ چھپ کرنمازپڑھ رہےتھے یکایک ابوطالب اس طرف آنکلے اس وقت تک حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اسلام کواپنے ماں باپ  اوردیگراقارب  پر ظاہر نہ کیاتھا۔ابوطالب  نے آنحضرت ﷺ کومخاطب کرکے پوچھا: اے بھتیجے یہ کیادین ہے اوریہ کیسی عبادت ہے ؟

آپ ﷺ نے فرمایا : اے چچایہی دین ہے اللہ کا اوراسی کے تمام فرشتوں اورپیغمبروں کا اورہمارے جدامجد ابراہیم ؑ کا۔ آپ اس ہدایت ودین کوقبول کریں ۔

ابوطالب نے کہا: اے بھتیجے میں اپنا آبائی مذہب نہیں چھوڑسکتا لیکن تم کوکوئی تکلیف  نہ پہنچنے دوں گا پھرحضرت علی رضی اللہ عنہ کومخاطب کرکے کہا : اےبیٹے تم کوبھلائی اورخیر ہی کی طرف بلایاہے ۔ان کاساتھ نہ چھوڑنا۔ ( سیرۃ ابن ہشام 87ج 1)

رسول اللہ ﷺ نے خیبر کےدن ارشادفرمایا :

” کل میں ایک ایسے شخص کوجھنڈادوں گاجس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ فتح نصیب کرےگا، وہ اللہ اوراس کے رسول ﷺ سے محبت کرتاہے اور اللہ اور اس کارسول ﷺ ا س سے محبت کرتےہیں۔” پھر آپ ﷺ نے اگلے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کوجھنڈاسونپ دیا۔ اورفرمایاتھا:

” تم مجھ سے ہواورمیں تجھ سے ہوں ۔ ” ( بخاری 4251)

 حضرت جعفرابن طالب رضی اللہ عنہ :

ایک روزحضرت علی رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ ﷺکے ساتھ مشغول عبادت تھے۔اتفاق سےابوطالب ادھرسےگزرے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے ۔ابوطالب نے جعفر رضی اللہ عنہ سےمخاطب ہوکرکہا: اے بیٹاتم بھی علی کی طرح اپنےچچاادبھائی کے قوت بازوہوجاؤ۔

حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سابقین اسلام میں سے،اکتیس یاپچیس صحابہ کےبعد مشرف باسلام ہوئے ( اصابہ ص 237ج1)

حضرت عفیف کندی رضی اللہ عنہ :

حضرت عفیف کندی حضرت ابن عباس کے دوست تھے عطرکی تجارت کرتے تھے۔عفیف کندی رضی اللہ عنہ فرماتےہیں : ایک بارمنیٰ آیاحضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا کہ ایک شخص آیا نہایت عمدہ طریقہ سےوضوکیااورنمازکےلیے کھڑا ہوگیا،اس کے بعد ایک عورت آئی اس نے بھی وضوکیااورنمازکے لیے کھڑی ہوگئی پھر ایک گیارہ سالہ لڑکا آیااس نے بھی وضوکیاا ورنمازکےلیے کھڑاہوگیا۔ میں نے عباس سےپوچھایہ کیادین ہے ۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہایہ میرے بھتیجے محمدﷺ کادین ہے۔جویہ کہتے ہیں کہ اللہ نے ان کورسول بناکربھیجاہے اوریہ لڑکا علی بن ابی طالب بھی میرابھتیجاہے اوریہ عورت محمدﷺ کی بیوی ہیں ۔عفیف بعد میں مشرف بالسلام ہوئے اوریہ کہاکرتےتھےکہ کاش میں چوتھامسلمان ہوتا،

حضرت طلحہٰ رضی اللہ عنہ ” حضرت طلحہٰ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں میں تجارت کی غرض سے بصریٰ گیاہواتھا ایک روزبازارمیں تھاکہ ایک راہب  کویہ دریافت کرتے سناکہ تم لوگوں میں سے کوئی مکہ کارہنے والاتونہیں حضرت طلحہٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ہوں ،راہب نے کہا: احمدﷺ کاظہور ہوگیا۔میں نے کہا: کون احمد

راہب  نے کہا: عبداللہ بن عبدالمطلب کے بیٹے ۔ یہ مہینہ ان کے ظہور کاہے مکہ میں ظاہرہوں گے ایک پتھریلی اورنخلستانی زمین کی طرف ہجرت کریں گے ، وہ آخری  نبی ہیں ۔ دیکھوتم پیچھے نہ رہنا ۔

آپ رضی اللہ عنہ فوراًمکہ واپس آئےلوگوں سےدریافت کیاتوبتایاگیا،ہاں محمدامین ﷺ نےنبوت کادعویٰ کیاہے اورابوبکررضی اللہ عنہ ان کےساتھ ہوگئےہیں میں فوراًابوبکررضی اللہ نہ کےپاس پہنچا،ابوبکررضی اللہ عنہ مجھ کولےکررسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضرہوئے ۔میں مشرف باسلام ہوا۔ ( اصابہ ص 229ج ترجمہ طلحہٰ رضی اللہ عنہ )

حضرت سعدبن ابی وقاص : حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتےہیں : میں نےا سلام لانےسےتین روزقبل خواب دیکھاکہ میں شدید تاریکی میں ہوں اچانک ایک ماہتاب طلوع ہوامیں اس کےپیچھے چل پڑادیکھاحضرت زید رضی اللہ عنہ،حضرت علی رضی اللہ عنہ اورابوبکررضی اللہ عنہ مجھ سے پہلےاس نورکی طرف سبقت لےچکےہیں ۔آپ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیا:آپﷺ کس کی دعوت دیتےہیں۔

آپﷺنےفرمایا: اللہ کی وحدانیت اوراپنےرسول اللہ ہونے کی شہادت کی طرف تم کوبلاتاہوں ۔میں نے کہا: اشھدان لاالہ الااللہ واشھدان محمدرسول اللہ ۔ اخربہ ابن ابی الدنیا وابن عساکر (خصائص کبری ص122ج1)

خالدبن سعیدبن العاص رضی اللہ عنہ :

سابقین اولین میں سے یہ چوتھے یاپانچویں مسلمان ہیں ،انہوں نے اسلام لانے سےقبل خواب دیکھاکہ ایک گہری خندق کےکنارے کھڑے ہیں میراباپ سعیدمجھے کھائی میں دھکیلنے کاارادہ کررہاہے کہ رسول اللہ ﷺتشریف لےآئے اورمجھے پکڑکرکھینچ لیا۔

ابوبکررضی اللہ عنہ کےپاس آکر خواب سنایا۔ آپ رضی اللہ عنہ نےکہا: یہ اللہ کےرسول ہیں ان کی اتباع کرواوراسلام قبول کرو۔پھرآپ رضی اللہ عنہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورمشرف باسلام ہوئے ۔

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ :

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بھی سابقین واولین میں سےہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ  مسلمانوں کےتیسرےخلیفہ اوررسول اکرم ﷺ کےدامادتھے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بڑے باحیاتھے حتی کہ فرشتے بھی ان سےحیاکرتےتھے  ۔

نبی کریم ﷺ نے آپ ہی کےمتعلق فرمایاتھا :

“کیامیں اس شخص سےحیانہ کروں جس سےفرشتے بھی حیاکرتے کرتےہیں ؟” (صحیح مسلم :3401)

ایک مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ،حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کےپاس متفکربیٹھےتھے آپ ﷺ کاادھرسےگزرہواحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اٹھے اورآپ ﷺ سے کچھ عرض کیا۔ آپ ﷺ تشریف  لائے اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ سےفرمایا: اے عثمان اللہ جنت کی دعوت دیتاہے تم یہ دعوت قبول کرلو میں اللہ کارسول ہوں جوتمام مخلوق کی طرف بھیجاگیاہوں۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتےہیں :

خداکی قسم آپ ﷺ کاکلام سنتےایسابےخود ہواکہ فوراًاسلام لےآیا۔

اسی طرح رفتہ رفتہ لوگ ا سلام میں داخل ہوتے رہے اورمسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت بن گئی ۔ان سابقین واولین میں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ  حضرت ارقم رضی اللہ عنہ، حضرت صہیب رضی اللہ عنہ،عثمان بن مظعون ،ابوعبیدہ بن الجراح ، ربدالرحمٰن بن عوف ،ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کےعلاوہ اوربھی صحابی شامل ہیں ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ : حضرت عمررضی اللہ عنہ کےاسلام قبول کرنےکےبعدمسلمان طاقتورہوگئے۔حضرت عبداللہ کہتے ہیں :

” ہم بیت اللہ میں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نےاسلام قبول کرلیا۔چنانچہ  ان کے اسلام قبول کرنےکےبعدہم اس میں نمازپڑھنےلگے ۔

انصارمدینہ میں سےسابقین واولین:

اللہ رب العزت ارشادفرماتےہیں :

وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٩﴾

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انصارمدینہ کی بعض صفات حمیدہ ذکرکی ہیں اوران کےحق میں گواہی دی ہے کہ وہ مہاجرین مکہ کے آنےسےپہلے ہی ایمان لاچکےتھے ،ان میں جذبہ ایثار وقربانی اسی قدرتھاکہ ہجرت کرکےآنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین  دےدلی  محبت کرتےتھے اگرمہاجرین  کومال غنیمت میں سے کچھ دیاجاتاتویہ اپنے دلوں میں تنگی محسوس نہ کرتے اوراپنی ضرورتوں پران کی ضرورتوں کوترجیح دیتے۔جس کی بے شمارمثالیں موجودہیں ۔

رسول اللہ ﷺنےارشادفرمایا:

“اگرانصارایک وادی یاگھاٹی میں چلیں تومیں بھی انصار کی وادی میں چلوں گا،اوراگرہجرت نہ ہوتی تومیں بھی انصارمیں سےایک شخص ہوتا۔

( بخاری :3779)

حضرت انس رضی اللہ فرماتےہیں خندق کےدن انصارمدینہ یوں کہتےتھے :

“ہم وہ ہیں جنہوں نے حضرت محمدﷺ کی بیعت  کی ہے کہ جب تک زندہ رہیں گے جہادکرتےرہیں گے ۔

اس کےجواب میں رسول اکرم ﷺنےیوں ارشادفرمایا:

“اے اللہ !ا صل زندگ توآخرت کی زندگی ہے،پس توانصار ومہاجرین کی عزت افزائی فرما۔” ( بخاری :3796)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سےمتعلق ہماراعقیدہ کیاہوناچاہیے ؟

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سےمحبت کرناواجب ،ان کےلیے دعاکرنالازم اوران سے بغض رکھناحرام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں صحبت رسول ﷺسے نوازااورانہیں نصرت دین کی خاطرآپ ﷺکے ساتھ منتخب فرمایا۔

سورۃ الحشر آیت 10 میں اللہ تعالیٰ نے مہاجرین وانصار کاتذکرہ کرنےکےبعدفرمایاہے :

وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٠﴾

حضرت براء رضی اللہ عنہ سےروایت  ہے کہ رسول اللہ ﷺنےانصارفرمایا:

ترجمہ :ان سے محبت صرف مومن ہی کرسکتاہے ،اوران سےبغض رکھنے ولامنافق ہی ہوسکتاہےجوان سےمحبت  کرےگااللہ ا س سے محبت کرےگا،جوان سے بغض رکھےگااللہ اس سے بغض رکھےگا”۔

 ( بخاری : 3783)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی عیب  گیری کرناانتہائی خطرناک امرہے ،جس سے فوری طورپر توبہ کرناضروری ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کوصحابہ کرام رضی اللہ عنہ سےسچی محبت کرنے کی توفیق دے ۔

آمین ثم آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں