سوتیلی ماں کی وراثت میں سوتیلی بیٹیوں کا حصہ

سوال:ایک خاتون کا انتقال ہوا ہے۔ مرحومہ کے 3 بھائی اور ایک بہن حیات ہیں۔ اُن کی 4 سوتیلی بیٹیاں (جو کہ شوہر کی پہلی بیوی سے)ہیں، سگی اولاد کوئی نہیں۔ اُن کی وصیت ہے کہ اُن کا تمام سونا (زیور) کسی ٹرسٹ کو دے دیا جائے۔ کیا ان کی وصیت پر عمل کیا جائے؟ کیا سوتیلی بیٹیوں کا ان کے مال میں کوئی حصہ ہے؟
تنقیح:مرحوم کے والدین دادا،دادی اور نانا،نانی میں سے کوئی حیات ہیں اور خاتون کے انتقال کے وقت ان کے شوہر زندہ تھے یا انتقال کر چکے تھے؟
جواب تنقیح:نہیں ان میں سے کوئی حیات نہیں ہیں،اور شوہر بھی پہلے ہی انتقال کر چکے تھے۔

الجواب باسم ملہم بالصواب
صورت مسئولہ میں سوتیلی ماں کا ترکہ سوتیلی اولاد میں تقسیم نہیں ہوگا۔تاہم ایک تہائی مال سے وصیت پر عمل کیا جائے گا اور بقیہ ترکہ بہن بھائیوں میں عصبہ ہونے کی بنا پر تقسیم ہوگا۔ کل سات حصے کیے جائیں گےجس میں سے دو دو حصے تینوں بھائیوں کے اور ایک حصہ بہن کا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
1)وان کانوا اخوة رجالاً ونساء: فللذکر مثل حظ الانثیین۔(النساء:176/4)
ترجمہ :
اور اگر بھائی بہن ہوں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔

2)مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ ‎﴿سورۃ النساء 12﴾
ترجمہ:اس وصیّت کے بعد جو کی جائے اور قرض کے بعد جب کہ اوروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو یہ مُقّرر کیا ہوا اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور اللہ تعالٰی دانا ہے بُردبار ۔

3)ویصیر عصبة بغیرہ البناتُ بالابن الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الفرائض522/1)

4)ثم العصبات بانفسھم اربعة اصناف: جزء المیت ثم اصلہ ثم جزء ابیہ ثم جزء جدہ ویقدم الاقرب فالاقرب منھم بھذا الترتیب فیقدم جزء المیت کالابن ثم ابنہ وابن سفل الخ ثم جزء ابیہ الاخ لابوین الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الفرائض518/6)۔

5)قال العلامۃ علاؤالدین الکاسانی رحمہ اللہ تعالی:الاخوات لاب وام للواحدة النصف وللثنتين فصاعدا الثلثان، كذا في خزانة المفتين ومع الاخ لاب وام للذكر مثل حظ الانثيين، ولهن الباقي مع البنات اومع بنات الابن، كذا في الكافي.(الفتاوی الھندیۃ:6/450)
واللہ اعلم بالصواب

27 جمادی الاولی 1444
21 دسمبر 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں