یہ سورت آنحضرتﷺ کے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی اوراس کا اکثر حصہ جنگ بدر کے بعد نازل ہوا تھا، جب مدینہ منورہ کی نوزائیدہ مسلمان ریاست مختلف مسائل سے دوچار تھی ،زندگی کا ایک نیا ڈھانچہ ابھررہا تھا جس کے لئے مسلمانوں کو اپنی عبادت کے طریقوں اور اخلاق ومعاشرت سے متعلق تفصیلی ہدایات کی ضرورت تھی، دشمن طاقتیں اسلام کی پیش قدمی کا راستہ روکنے کے لئے سرتوڑ کوششیں کررہی تھیں اورمسلمانوں کو اپنی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے نت نئے مسائل کا سامنا تھا، سورۂ نساء نے ان تمام معاملات میں تفصیلی ہدایات فراہم کی ہیں،چونکہ ایک مستحکم خاندانی ڈھانچہ کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے ،اس لئے یہ سورت خاندانی معاملات کے بارے میں مفصل احکام سے شروع ہوئی ہے؛ چونکہ خاندانی نظام میں عورتوں کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے اس لئے عورتوں کے بارے میں اس سورت نے تفصیلی احکام عطا فرمائے ہیں اوراسی لئے اس کا نام سورۂ نساء ہے ،جنگ احد کے بعد بہت سی خواتین بیوہ او ربہت سے بچے یتیم ہوگئے تھے ،
* اس لئے سورت نے شروع ہی میں یتیموں کے حقوق کے تحفظ کا انتظام فرمایا ہے
* آیت نمبر ١٤ تک میراث کے احکام تفصیل سے بیان فرمائے ہیں ،زمانۂ جاہلیت میں عورتوں کے ساتھ طرح طرح کے ظلم ہوتے تھے ان مظالم کی ایک ایک کرکے نشاندہی کی گئی ہے اورمعاشرے سے ان کا خاتمہ کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں ،
* نکاح وطلاق کے مفصل احکام بیان کئے گئے ہیں اورمیاں بیوی کے حقوق متعین فرمائے گئے ہیں، یہ مضمون ۳۵ تک چلا ہے
* اس کے بعد انسان کی باطنی اور معاشرتی اصلاح کی طرف توجہ دلائی گئی ہے،مسلمانوں کو عرب کے صحراؤں میں سفر کے دوران پانی کی قلت پیش آتی تھی لہذا آیت ۴۳ میں تیمم کا طریقہ اورآیت ۱۰۱ میں سفر میں نماز قصر کرنے کی سہولت عطا فرمائی گئی ہے ،
* نیز جہاد کے دوران نمازِ خوف کا طریقہ آیت ۱۰۲ اور۱۰۳ میں بتایاگیا ہے
* مدینہ منورہ میں بسنے والے یہودیوں نے آنحضرتﷺ سے معاہدہ کرنے کے باوجود مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کررکھا تھا آیات۴۴تا۵۷ اور ۱۵۳ تا ۱۷۵ میں ان کی بد اعمالیوں کوواضح فرمایا گیا ہے اورانہیں راہ راست پر آنے کی ترغیب دی گئی ہے،آیات۱۷۱ تا۱۷۵ میں ان کے ساتھ عیسائیوں کوبھی خطاب میں شامل کرلیاگیا ہے اور انہیں تثلیث کے عقیدے کے بجائے خالص توحید اختیار کرنے کی دعوت دی گئی ہیں
* اس کے علاوہ آیات ۵۸،۵۹ میں سیاست اورحکمرانی سے متعلق ہدایات آئی ہیں، منافقین کی بد اعمالیاں آیات ۶۰ تا ۷۰ اورپھر آیات ۱۳۷ تا ۱۵۲ میں واضح کی گئی ہیں،آیات۶۹تا۷۱ نے جہاد کے احکام بیان کرکے منافقین کی ریشہ دوانیوں کا پردہ چاک کیا ہے، اسی سیاق میں آیات ۹۲،۹۳ میں قتل کی سزائیں مقرر فرمائی گئی ہیں، جومسلمان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے اورکفار کے ہاتھوں مظالم جھیل رہے تھے ان کی ہجرت کے مسائل آیات ۹۷ تا۱۰۰ میں زیر بحث آئے ہیں، اسی دوران بہت سے تنازعات آنحضرتﷺ کے سامنے فیصلے کے لئے لائے گئے،آیات ۱۰۵ تا ۱۱۵ میں ان فیصلوں کا طریقہ آپ کو بتایاگیا ہے اورمسلمانوں کوآپ کے فیصلے دل وجان سے قبول کرنے کی تاکید کی گئی ہے
* آیات ۱۱۶ تا ۱۲۶ میں توحید کی اہمیت واضح کی گئی ہے، خاندانی نظام اور میراث کے بارے میں صحابہ کرامؓ نے آنحضرتﷺ سے متعدد سوالات پوچھے تھے، آیات ۱۲۷ تا۱۲۹ اورپھر ۱۷۶ میں ان سوالات کا جواب دیاگیا ہے
* خلاصہ یہ کہ پوری سورت احکام اورتعلیمات سے بھری ہوئی ہے اور شروع میں تقوی کا جو حکم دیاگیا تھا کہا جاسکتا ہے پوری سورت اس کی تفصیلات بیان کرتی ہے