وکیل امین ہوتا ہے!

سوال: ایک شخص نے دوسرے سے کوئی چیز خریدنے کا کہا ،اور اس کے اندازے کے مطابق اس چیز کی قیمت ایک ہزار روپے ہے ،اس نے لانے والے کو اسی کے مطابق رقم دی جبکہ خرید کرلانے والا شخص اس سے کم قیمت میں خرید کر زائد رقم گاڑی کے پٹرول وغیرہ کے لیے رکھ لیتا ہے۔
واضح رہے کہ وہ صرف اسی لیے کم قیمت میں خریدنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اسی رقم میں سے اپنا آنے جانے کا خرچہ نکال لے،تو کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟

الجواب باسم ملھم الصواب!

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص دوسرے کو یہ کہتا ہے کہ آپ میرے لیے بازار سے فلاں چیز لے آؤ تو یہ توکیل(وکیل بنانے)کا معاملہ ہے،اب چونکہ وکیل امین ہوتا ہے،اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ حکم دینے والے کے علم اور صریح اجازت کے بغیر زائد کوئی تصرف کرے؛ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اس شخص کے لیے پٹرول یا کرایے کے پیسے حکم کرنے والے کے علم میں لائے بغیر نکالنا درست نہیں،البتہ اگر پہلے سے یہ شرط لگائی تھی کہ وہ اس رقم میں سے آنے جانے کا خرچہ بھی نکالے گا تو اس صورت میں درست ہوگا۔
=========

حوالہ جات

1۔لأنه یؤدّي إلی تغریر الآمر حیث اعتمد علیه۔
( البحر الرائق: 158/7)

2۔لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنه، ولا ولایته۔
(فتاوی شامی:291/9)
3۔”(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة“۔

(درر الحکام فی شرح مجلة الاحكام:573/3)

واللّٰہ اعلم بالصواب

7 شعبان 1444ھ
28فروری 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں