زکوٰۃ کسی فلاحی ادارے کو دینا

سوال: سیلاب زدگان کی مدد کے لیے جو ٹیم بنائی ہوئی ہے کیا ان کو زکوٰۃ کے پیسے دے سکتے ہیں؟؟
الجواب باسم ملھم الصواب:
واضح رہے کہ زکوٰۃ کی رقم مستحق شخص کو مالک بنا کر دینا ضروری ہے ،مالک بنائے بغیر صرف گھر کی تعمیر کر دینا یا مرمت کر دینا اس سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی،لہذا اگر سیلاب زدگان کے لیے ایسے ادارے کام کر رہے ہیں جو زکوٰۃ کے صحیح مصارف سے واقف ہیں اور ان تک پہنچا سکتے ہیں تو ایسے اداروں کو زکوٰۃ دینا درست ہے ۔اور اگر کوئی ادارہ زکوٰۃ کی رقم یقینی طور پر مصرف میں نہیں لگاتا تو اسے زکوٰۃ دینے سے بچا جائے۔
حوالہ جات:
1:القرآن الکریم: (التوبة، الایة: 60)
اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاِبْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌo
زکوٰۃ مفلسوں اور محتاجوں اور اس کا کام کرنے والوں کا حق ہے اور جن کی دلجوئی کرنی ہے اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے قرض میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو، یہ اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔
2:الدر المختار: (کتاب الزکوۃ، 270/2، ط: سعید)
ولا یخرج (المزکی) عن العھدۃ بالعزل بل بالا داء للفقراء
3:فتاوی ہندیہ میں ہے:
“أما تفسیرها فھي تملیك المال من فقیر مسلم غیر هاشمي ولامولاہ بشرط قطع المنفعة عن المملك من کل وجه لله تعالی هذا في الشرع.”
(کتاب الزکوۃ، الباب الاول فی تفسیرالزکوۃ،ج:1 ص:170،ط:مکتبه حقانیه)
والله سبحانه وتعالى اعلم
تاريخ :22/8/22
24محرم الحرام 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں