اﷲ تعالیٰ کے بن مانگے انعامات

نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم، امّابعد!
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِ یْ بِبَکَّۃَمُبٰرَکًا وَّ ھُدًی لِّلْعٰالَمِیْنَ
(سورہ آل عمران، آیت ۹۶)
اللہ جل شانہ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ وہ ہمیں بعض ایسی چیزیں عطا فرما تے ہیں جو ہم ان سے طلب کرتے ہیں اور مانگتے ہیں اور بعض چیزیں بغیر طلب کے ہی عطا کر دیتے ہیں۔ اس نے ہمیں بعض غیر اختیاری چیزیں عطا فرمائی ہیں جن میں انسان کی طلب کا کوئی حصہ نہیں۔ بعض چیزیں انسان طلب کرتا ہے اور بعض چیزیں اللہ پاک خود ہی عطا کرتا ہے جو اس کے نفع کے لیے ہوتی ہیں۔ اگر وہ ان کو اختیار کرے تو اسے دنیا میں بھی فائدہ ہوتا ہے اور آخرت میں بھی فائدہ ہوگا۔
پہلا انعام بیت اﷲ:
ان ہی میں سے ایک کعبہ اور بیت اللہ کا بنانا ہے جہاں سے ہدایت پھوٹتی ہے اور پوری دنیا کو ہدایت اسی سے ملتی ہے۔ ان اول بیت وضع للناس للذ ی ببکۃمبارکا و ھدی للعالمین۔ اللہ پاک فرمارہے ہیں کہ یہ پہلا گھر ہے جس کو لوگوں کے لیے مکہ مبارکہ میں بنایا گیا ہے اور اس میں جہانوں کے لیے ہدایت ہے۔ ہدایت کی ابتداء وہیں سے ہوتی ہے اور پھر وہیں سے پوری دنیا میں ہدایت پھیلتی ہے۔ اس کو اللہ پاک نے ہدایت کا مرکز بنایا ہے اور ہدایت کا سلسلہ یہیں سے چلتا ہے ،اگر ہدایت لینا مقصود ہو تو ہمیں اپنا رُخ ، چہرہ اس کی طرف کرنا اور اس کو محور و مرکز بنانا ضروری ہے ورنہ اگر اس سے کٹ گئے اور اس سے دور ہو گئے تو ہدایت سے دُور ہوجائیں گے۔
دوسرا انعام قرآن:
دوسرا قرآن مجید ہے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں اس کو نازل کیا اور اس سے بھی ہدایت ملتی ہے۔ قرآن مجید اللہ پاک کی و ہ کتاب ہے کہ اگر ہدایت لینا ہے تو اس سے لی جائے گی ورنہ ہدایت کہیں اور سے مل ہی نہیں سکتی۔ ویسے تو اکثر انسا ن اپنے آپ کو صحیح اور ہدایت پر سمجھتے ہیں لیکن اگر انسان کو حقیقت میں اپنے بارے میں جاننا اور معلوم کرنا ہو تو وہ اپنے اعمال کو قرآن پاک پر پیش کرے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ وہ ہدایت پر ہے یا گمراہی پر ہے ۔ کیونکہ یہ قرآن تو ھدی للناس وبینت من الھدٰی والفرقان(سورۃ البقرۃ پارہ نمبر ۲ آیت نمبر ۱۸۵ )ہے یعنی قرآن لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور حق و باطل اور ہدایت و گمراہی کے درمیان فرق کرنے والا ہے۔ جتنی بھی گمراہیاں دنیا میںآئیں ہیں یا آئیں گی ، قرآن ان کو کھول کر اور تفصیل سے بیان کرتاہے۔
تیسرا انعام  روزہ :
تیسرا رمضان المبارک کے روزے عطا کیے کہ ہم اس مہینے میں کھانے پینے کی چیزوں کو چھوڑ دیں، شہوانی قوتوں کو ترقی دینے والی چیزوں کو چھوڑ دیں اور اللہ پاک کی صفات کو اپنالیں کیوں کہ اللہ پاک کے اندر کھانے پینے اور میاں بیوی کے تعلقات یعنی جنسی خواہش کی صفات نہیں ہیں وہ ان سب سے پاک ہیں اور سب تعلقات کو چھوڑ کراور سب سے رخ پھیر کر اللہ پاک کی طرف آجائیں۔اللہ پاک کے وصف کو اپنایا جائے تاکہ ہم اللہ پاک کا قرب اور تقویٰ حاصل کرسکیں کیوں کہ قاعدہ ہے کہ جتنا کوئی کسی سے ڈرے گا اور اس سے قریب ہوگا اس کی عظمت اور معرفت اس کو اتنی ہی ملے گی اور اسی لیے اللہ پاک فرمارہے ہیں کہ ہم نے روزہ اس لیے بنایا ہے کہ تم ہم سے ڈرنے لگ جاؤ۔یعنی ہمارا خوف اور ڈر پیدا کرنا اور ہمارا قرب حاصل کرنا چاہتے ہو تو روزہ رکھو، ہم تمھیں اپنا بنا لیں گے اور تمھیں اپنا تقوٰی اور معرفت د ے دیں گے۔ اگر ہم اللہ پاک کو محبوب لگنے لگ جائیں تو ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ کے نبی w نے فرمایا کہ ایک مسلمان روزہ دار کی وہ ’’بو‘‘ جو اس کے خالی پیٹ ہونے کی وجہ سے اس کے منہ سے آتی ہے اللہ پاک کو وہ مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے ۔
(ریاض الصالحین: ص ۳۷۵ باب وجوب صوم رمضان بحوالہ بخاری مسلم)
کیوں کہ جب کسی سے تعلق ہوتا ہے محبت ہوتی ہے تو اس کی ہر چیز اس کو اچھی لگنے لگتی ہے۔ اللہ پاک کا جتنا قرب ملے گا اتنا ہی اللہ پاک کے محبوب ہوتے چلے جائیں گے اور پھراللہ پاک ہم سے وہ کام کروائیں گے جو اللہ پاک کو پسند ہوں اور گناہوں اور نافر مانی کی زندگی سے ہمیں بچا لیں گے۔
گناہ دو طرح کے ہوتے ہیں:
گناہ دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جن کی انسان کو عادت ہوتی ہے اور دوسرے وہ جن کی انسان کو عادت نہیں ہوتی بلکہ وہ کبھی کبھی ہی اس سے سرزدہوتے ہیں۔ اب کبھی کبھی کرنے والے گناہ تو چھوڑنا آسان ہوتا ہے اور انسان ان کو آسانی سے چھوڑ دیتا ہے لیکن وہ گناہ جن کی عادت پڑچکی ہوتی ہے انہیں چھوڑنا تھوڑی مشقت چاہتا ہے اور اس میں تھوڑی محنت کرنا پڑتی ہے۔ روزے کا فائدہ یہ ہے کہ عادت والے گناہ چھوڑنے کی ہمت اس کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اور تھوڑی ہمت اور کوشش سے اس کو چھوڑنا ممکن ہوجاتا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ’’ اجی روزہ تو وہ رکھے جس کے گھر کھانے کو نہ ہو‘‘ اللہ پاک معاف کریں ۔یہ کلمہ کفر ہے  گویا کہنے والا یہ کہہ رہا ہے اللہ پاک سے کہ آپ نے مجھ پر بوجھ ڈال دیا ہے۔ یاد رکھیے ایسا کہنے والا اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ۔
عربوں کی صفات:
اللہ پاک نے اپنا دین عربوں پر نازل کیا ہے۔ جن کے اندر اللہ پاک نے عجیب صفات رکھی ہیں اللہ پاک نے ان کو پسند کیا ہے چنا ہے، قرآن ان کی زبان میں اتارا، ان کے علاقے میں اُتارا، نبی بھی انہی میں سے بھیجا ۔ یہ بڑی صفات والے ہیں۔ لوگ عربوں کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن اصل عرب جو ہیں وہ الحمد للہ! اب بھی انہی صفات سے متصف ہیں ۔ رمضان کے علاوہ بھی سنت پر چلتے ہوئے جمعرات اور پیر کا روزہ یوں اہتمام سے رکھتے ہیں گویا رمضان کا منظر ہو، بڑی پابندی سے یہ روزے رکھتے ہیں حالانکہ عرب کی گرمی بڑی مشہور ہے۔ اور ا سی طرح اہتمام سے دستر خوان پر کھجوریں اور آب زم زم کا انتظام کرتے ہیں کہ دوسرے بھی روزہ کھول لیں۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ سال کے رمضان کے فرض روزے جو ہمیں رکھنے ہی ہیں ان کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ٹل جائیں، بہانے کرتے ہیں کہ ہم بیمار ہیں، یہ ہوگیا وہ ہوگیا ۔یہ تو اللہ پاک ہی جانتے ہیں کہ کون بیمار ہے اور کس کا کیا عذر ہے۔
روزے کے فوائد:
اللہ پاک کو دھوکہ نہیں دیا جاسکتا اگر بغیر عذر کے روزے کو چھوڑا تو اللہ پاک قیامت کے دن پوچھیں گے کہ تم نے روزے کیوں نہیں رکھے ہم نے تم پر ہی نہیں بلکہ پہلی ساری امتوں پر بھی روزے فرض کیے تھے۔ یعنی روزے اللہ پاک کو اتنے محبوب ہیں کہ سارے نبیوں اور اُمتوں کو عطا کیے۔ اس لیے فرمایا: یا یھا الذین امنو کتب علیکم الصیام کہ اے مجھے دل سے ماننے والو، ہم نے روزے تم پر فرض کیے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے تھے اے اللہ اس کا فائدہ کیا ہے ہم روز ے رکھیں گے تو ہمیں کیا ملے گا؟ فرمایا: لعلکم تتقون(سورۃ البقرۃ آیت ۱۸۳ پارہ ۲) تاکہ تم متقی بن جاؤ پرہیز گار بن جاؤ ۔ کتنے دن کے روزے ہیں؟ کہنے کو تو ایک مہینہ ہے مگر فوائد کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جائے گا کہ گنتی کے چند دن ہیں۔
ایک مہینہ اللہ پاک کی خاطر گرمی  بھوک  پیاس  جنسی خواہشات سے اپنے آپ کوصرف دن میں روکنا اس لیے کہ اللہ پاک مل جائیں اللہ پاک کی محبت مل جائے اس کے لیے تو ساری عمر بھی اگر روزے رکھنا پڑیں تو بھی کم ہے۔ اس لیے فرمایا کہ یہ گنتی کے چند دن روزے رکھ لو! اللہ پاک تمہیں وہ مقام عطا فرمائیں گے جو انسان کوبہت بلند مقام عطا کرتا ہے اور اسے فرشتوں سے آگے لے جاتا ہے۔ اس لیے روزہ رکھنے میں ہمت کرنی چاہئے اور کوئی بھی روزہ نہیں چھوڑنا چاہئے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے روزے رکھے یہاں تک کہ گرمی شدید ہوتی تھی اور عرب کی گرمی تو ایسی شدید ہے اس کا اندازہ وہاں جانے والوں کو بخوبی ہو گا کہ اگر کالے پتھر پر پاؤں پڑ جا ئے تو ایسا لگتا ہے کہ گویا آگ میں ڈال دیا تو اتنی شدید گرمی میں بھی صحابہ رضی اﷲ عنہم روزے رکھتے تھے۔ اتنی گرمی محسوس ہوتی کہ بھیگا ہوا کپڑا اپنے بدن کے گرد لپیٹ لیا کرتے تھے تاکہ اس کی ٹھنڈک سے راحت ملے۔ اس لیے اگر کوئی راحت حاصل کرنے کے لیے نہائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اتنی گرمی کے باوجود کبھی روزہ نہیں چھوڑا ۔
اللہ پاک ہمیں پورے روزے رکھنے کی اور تراویح کی پوری ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے ذریعے اللہ پاک ہمیں اپنا قرب نصیب فرمائے۔
آمین

 

اپنا تبصرہ بھیجیں