تراویح کےاحکام ومسائل

تراویح کےاحکام ومسائل

1۔ہرمسلمان عاقل، بالغ مر د اور عورت کے لیے تراویح پڑھنا سنت موٴکدہ ہےیعنی بلاعذر چھوڑناباعث ملامت اور چھوڑنےکی عادت بنالینا گناہ ہے۔

2۔محلہ کی ہرمسجد میں جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنا سنت موٴکدہ علی الکفایہ ہے، یعنی اگر بعض لوگ مسجد میں جماعت کے ساتھ تراویح پڑھ لیں اور باقی انفرادی طور پر یاکسی اور جگہ جماعت کے ساتھ تراویح پڑھیں تو سب بری الذمہ ہوجائیں گے۔ لیکن اگر کسی نے بھی مسجد میں جماعت کے ساتھ تراویح نہ پڑھی تو سب گناہ گار ہوں گے۔

ترویحہ اور اس کی دعا

ہر چاررکعات تراویح پڑھنے کے بعد کچھ دیر بیٹھنامستحب ہے۔تاہم اس وقفےکےدوران کوئی خاص دعامسنون یامستحب نہیں،کوئی بھی دعاکی جاسکتی ہے۔ ذکریاتلاوت بھی کی جاسکتی ہے۔

عموماًلوگ سبحان ذی الملک والملکوت الخ والی دعاپڑھنےکولازم یامسنون سمجھتے ہیں،حالانکہ یہ دعاپڑھنانہ لازم ہے نہ مسنون اور نہ ہی مستحب۔

مسافراورمریض کےلیے تراویح

مسافر اور مریض کے لیے تراویح چھوڑ نے کی اجازت ہے،البتہ اگرمسافر اورمریض کو تراویح پڑھنے میں تکلیف نہ ہو، تو ان کے لیے تراویح پڑھنا افضل ہے۔

عشاءجماعت سےنہ پڑھی ہو

جس شخص نے عشاکی نماز اور تراویح جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی، اس کے لیے وتر جماعت کے ساتھ پڑھنا جائز ہے۔اسی طرح جس شخص نےعشاکی نماز تنہاپڑھی ہو وہ بھی تراویح اور وتر کی جماعت میں شریک ہوسکتا ہے۔

تراویح بیٹھ کرپڑھنا

تراویح بیٹھ کر پڑھنے سے اس کاثواب نصف ہوجاتا ہے، اس لیے بلاعذر بیٹھ کر تراویح نہیں پڑھنی چاہیے،لیکن پڑھ لی تواداہوجائے گی۔

بسم اللہ بلندآوازسے پڑھنا

پوری تراویح میں “بسم اللہ الرحمٰن الرحیم “ایک مرتبہ کسی سورت کے شروع میں بلند آواز سے پڑھنا ضروری ہے کیونکہ “بسم اللہ ” بھی قرآن مجید کی ایک آیت ہے اگرچہ متعین طور پر کسی سورت کا جزونہیں ۔

لہٰذا پوری تراویح میں اگر ایک دفعہ بھی “بسم اللہ “نہیں پڑھی گئی تو ختمِ قرآن جو کہ سنتِ مؤکدہ ہے وہ ایک آیت کی کمی کی وجہ سے ادا نہیں ہوگی۔

تراویح پورے رمضان کی سنت ہے:

رمضان کی تمام راتوں میں20رکعت تراویح سنت مؤکدہ ہے ۔تین روزہ، دس روزہ تراویح میں قرآن پاک سن کر تراویح سے فارغ سمجھ بیٹھنا قطعاً درست نہیں۔

گھروں میں تراویح کی جماعت :

گھروں میں تراویح کی جماعت درست ہے،لیکن اس سے پہلے عشا کے فرض مسجد میں جماعت سے پڑھناافضل ہے؛تاکہ مسجد کے ثواب سےمحرومی نہ ہو؛کیونکہ جس طرح باجماعت نمازکاثواب تنہانماز کے مقابلے میں زیادہ ہے اسی طرح مسجد کی جماعت کاثواب گھریاآفس کی جماعت سے زیادہ ہے۔اگر ایک امام کےپیچھے ایک مقتدی ہو تویہ بھی جماعت ہے لیکن ثواب صرف ایک مقتدی جتنا ہے پھر جتنی تعداد بڑھے گی اتنی فضیلت زیادہ ہوگی ،ظاہر ہے مسجد کے اندر بہت زیادہ لوگ ہوتے ہیں اس لیے ثواب اتنازیادہ ہوگا ،چنانچہ ایک روایت کےمطابق تنہانماز کےمقابلے میں مسجدکےاندرجماعت سےنماز پڑھنے کا ثواب25 درجےیا27درجےزیادہ ہے۔

پہلی رکعت کےرکوع تک سستانا

پہلی رکعت کے رکوع کی تکبیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہنا یا دیگر غیر ضروری کاموں میں مشغول رہنامکروہ ہے۔

نابالغ کے پیچھے تراویح:

چاند کے حساب سے 15سال سے کم عمر کے پیچھے بالغ کی فرض یا تراویح جائز نہیں۔ البتہ 15 سال سے کم عمر میں بلوغت کی علامات ظاہر ہوجائیں تو اس کی امامت میں فرض یا تراویح جائز ہے۔البتہ نابالغ کےپیچھے نابالغ کی تراویح جائزہے۔

نابالغ حافظ کو سامع بنانا:

نا بالغ حافظ کو سامع کے طور پر کھڑا کرنا جائز ہے۔

تراویح کی جماعت میں عورتو ں کی شرکت :

عورتیں تراویح کی نما ز گھر میں بغیر جماعت کے انفرادی طور پر پڑھیں گی۔تاہم کسی مرد کے پیچھے تراویح کی جماعت میں عورتیں شریک ہوں تواس کی تین صورتیں ہیں:

۱۔مسجد کی جماعت میں شریک ہوں ،یہ صورت جائز نہیں کیونکہ مسجد میں فرض نماز کے لیے بھی عورتوں کا مسجد جانا منع ہے۔

۲۔کسی گھر کی خواتین اپنے گھر میں کسی محرم مرد کے پیچھے تمام شرائط کی رعایت کرتے ہوئے تراویح جماعت سے پڑھیں،یہ صورت بالاتفاق جائز ہے۔

۳۔خواتین کسی گھر میں نا محرم حافظ کے پیچھے تراویح کی جماعت میں شریک ہوں۔یہ صورت ان شرائط کے ساتھ جائز ہے:

(۱)عورتوں کے لیے پردہ کا سخت انتظام ہو۔

(۲)ان کو جمع کرنے اور گھروں پر بلانے کا خاص اہتمام نہ کیا جائے۔(تفصیل کے لیےفتاوی بینات: ج۲ص۳۲۱تا ۳۲۸)

حافظہ کاتروایح کی امامت

واضح رہے کہ فرض ،عیدین اور تمام نوافل میں عورتوں کی جماعت مکروہ ہے،البتہ صرف تراویح کی نماز میں عورتوں کی جماعت کی چند شرائط کے ساتھ علما نے اجازت دی ہے:

۱۔عورتوں کی امامت نماز تراویح میں حافظہ کر وائے،عام خاتون جو حافظ قرآن نہ ہو اس کا تراویح کی جماعت میں امام بننا بدستور مکروہ ہے۔

۲۔۔امام عورت کے پیچھے مرد شریک نہ ہوں،اگر کسی مرد نے چاہے وہ محرم ہو یا غیر محرم عورت کی امامت میں نماز پڑھی تو مرد کی نماز نہ ہوگی۔

۳۔عورت امامت کراتے وقت مرد امام کی طرح صف سے آگے کھڑی نہ ہو بلکہ صف کے وسط میں ہی کھڑی ہو،کیونکہ امام عورت اگر جماعت کر وائے تو اس کا مردوں کی طرح آگے کھڑے ہونا مکروہ ہے۔

۴۔عورتوں کی اس با جماعت تراویح کا باقاعدہ اہتمام نہ کیا جائے،خواتین کو گھروں سے بلا کر انہیں جماعت میں شرکت کی دعوت نہ دی جائے،بلکہ گھر کی ہی چند خواتین حافظہ کے پیچھے بلا اہتمام کھڑی ہو جایا کریں،اہتمام کرنا اور شرکت کی دعوت دینا مکروہ ہے۔

۵۔حافظہ،لاؤڈ اسپیکر یا اتنی بلند آواز سے تلاوت نہ کرے کہ نا محرم مرد کے کانوں میں اس کی آواز جائے،کیونکہ عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے۔

ان پانچ شرائط کی رعایت کے ساتھ صرف تراویح کی جماعت کروانے کی حافظہ عورت کو گنجائش دی گئی ہے تاکہ اس کا حفظ پختہ رہے۔نیز بعض وہ آثار جو عورتوں کی جماعت سے متعلق ہیں ان کا مصداق بھی بن جائے۔

ایک مسجد کےاندرتراویح کی متعدد جماعتیں

فقہائے کرام کی صراحت کے مطابق ایک مسجد میں تراویح کی متعدد جماعتیں مکروہ ہیں اور اسی بنا پر دور قریب اور معاصر فقہا کی ایک جماعت کے نزدیک تراویح کی ،ایک ہی مسجد میں متعدد جماعتیں مکروہ ہیں ۔

جبکہ بعض فقہا کی رائے میں حفاظ کی کثرت اور حفظ قرآن کی ضرورت کے پیش نظر اس کی اجازت ہے۔ بشرطیکہ آپس میں آوازوں کا ٹکراؤ پیدا نہ ہو اور عوام کی نیت تمام راتوں کی مکمل تراویح میں شرکت کی ہو۔ چند روزہ تراویح ادا کر لینے کے بعد بقیہ دن تراویح سر سےا تارنا مقصد نہ ہو۔

جو شخص جس رائے پرعمل کرے وہ دوسرے پر علمی اعتراض اٹھانےکا تو حق رکھتا ہے ۔ لیکن لعن طعن اور بد گمانی کا حق نہیں رکھتا ۔

تین بارسورۃ الاخلاص

ختم قرآن کےدن سورۃ الاخلاص تین بار بعض علماکےنزدیک مکروہ اوربعض کےنزدیک صرف جائزہے۔افضل یامستحب کسی کےنزدیک بھی نہیں ہے۔ (تھانوی، تحفۂ رمضان:109گابا)

اپنا تبصرہ بھیجیں