ایسے دربار دعا/تعویز/دم کروانے جانا درست ہے جہاں کوئی قبر/مزار نہ ہو

سوال: کیا ایسے دربار دعا/تعویز/دم کروانے جانا درست ہے جہاں کوئی قبر/مزار نہ ہو؟

الجواب باسم ملھم الصواب

سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ آدمی مسنون دُعاؤں، ذکر و اذکار کا اہتمام کرے اور اللہ تعالی سے اپنا تعلق مضبوط کرے تو اللہ تعالی ان ہر طرح کی تکالیف اور روحانی بیماریوں محفوظ فرمائیں گے۔

البتہ اگر کوئی دربار سے دم کروانے جاتا ہے تو چند شرائط کے ساتھ اس کی اجازت ہے؛

1- مرد و عورت کا اختلاط نہ ہو۔

2- بے پردگی نہ ہو۔

3- شرکیہ کلمات کے ذریعے دم نہ کیا جائے۔

4- ایسے الفاظ کے ذریعے دم کیا جائے جس کے معنی معلوم ہوں۔

5.تعویذ کو مؤثر بالذات نہ سمجھا جائے۔

حوالہ جات:

1- يقول الله تعالى فی کتابه الکریم: (وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ)

(سورة غافر: 60)

اور تمہارے رب نے فرمایا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بے شک جو لوگ میری عبادت سے سرکشی کرتے ہیں عنقریب وہ ذلیل ہو کر دوزخ میں داخل ہوں گے۔

2- عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: ليس شيءٌ أكرمَ على الله تعالی من الدعاء.

(جامع الترمذی: 3370)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالی کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز کوئی چیز نہیں۔

3- عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، قَالَ: كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ؟ فَقَالَ: اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ تَكُنْ شِرْكاً.

(سنن ابی داؤد: 3886)

´عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں` ہم جاہلیت میں جھاڑ پھونک کرتے تھے تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اسے کیسا سمجھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنا دم میرے اوپر پیش کرو، دم(جھاڑ پھونک) کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ شرک نہ ہو“۔

4- سھل بن حنیف یقول: مَرَرنَا بِسَیلٍ فَدَخَلْتُ ،فَاغْتَسَلْتُ فیہ ،فَخَرَجْتُ مَحْمَوْماً، فنُمِیَ ذٰلِکَ اِلیٰ رَسُول اللہ صَلّی اللہ علیہ وسلم، فَقَال: مُرُوا اَبَا ثَابِتٍ یَتَعَوَّذ قَالت: فَقُلتُ: یَا سَیَّدِی والرُّقیٰ صَالِحَةٌ؟ فَقَال: لَا رُقْیَة إلَّا فی نَفسٍ أو حُمَةٍ أو لَدࣿغَةٍ.

(سنن ابی داؤد: 3888)

سہل بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک ندی کے پاس سے گزرے تو میں اس میں داخل ہوگیا اور اس میں غسل کیا۔ جب باہر نکلا تو مجھے بخار چڑھا ہوا تھا۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو ثابت کو کہو کہ انہیں تعویذ دے دیں۔

میں نے سہل رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا: میرے آقا کیا دم مفید ہوتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: دم بدنظری، سانپ کے کاٹے اور بچھو کے ڈنک میں ہی مفید ہوتے ہیں۔

5- امراض اور پریشانیاں دور ہونے کی کل تین تدبیریں ہیں: دوا، دعا، تعویذ۔ پہلی دو تو ضرور کرو اور تیسری کبھی کبھی بعض امراض میں کرلو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ نہ کرو کہ دوا اور تعویذ پر اکتفا کرلو اور دعا کو بالکل چھوڑ دو۔

جس طرح بیماری کا علاج دوا دارو سے ہوتا ہے، اسی طرح بعض اوقات جھاڑ پھونک سے بھی فائدہ ہوجاتا ہے۔

الغرض اصل کام تو یہ ہے کہ صبر و استقلال کے ساتھ دوا اور دعا کرو اور کبھی کبھی جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈے جو حدودِ شریعت کے اندر ہوں کرلو….. عملیات و تعویذات دوسرے جائز کاموں کی طرح ایک جائز کام ہے۔ اگر اس میں کوئی مفسدہ شامل ہوجائے یا جواز کی شرط نہ پائی جائے تو ناجائز اور معصیت ہے۔

(عملیات وتعویذات اور اس کے شرعی احکام: 17-18)

واللہ اعلم بالصواب

24 ذوالقعدہ 1443ھ

23 جون 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں