اذان کا جواب دینے کی فضیلت میں وارد روایت کی تحقیق

فتویٰ نمبر:4067

سوال: السلام علیکم!

ترجمہ حدیث: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عورتوں کی جماعت! جب تم اس حبشی کی اذان اور اقامت سنو تو اس طرح کہو جس طرح یہ کہے۔ بے شک تمہارے لیے ہر حرف کے بدلے دس لاکھ نیکیاں ہوں گی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یہ عورتوں کے لیے ہوا۔ مردوں کے لیے کیا ہے؟

ارشاد فرمایا:اے عمر! مردوں کے لیے عورتوں کی بنسبت دُگنا اجر ہے۔(الکبیر للطبرانی، عن میمونہ رضی اللہ عنھا)

اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے۔

و السلام

الجواب حامدا و مصليا

و علیکم السلام!

حضرات محدثین نے مذکورہ حدیث الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ ذکر فرمایا۔ مثال کے طور پر: 

کنز العمال میں ہے: 

۲۱۰۱۰۔ يا معشر النساء إذا سمعتن أذان هذا الحبشي وإقامته، فقلن كما يقول فإن لكن بكل حرف ألف ألف درجة؛ قال عمر: هذا للنساء فما للرجال؟ قال: للرجال ضعفان يا عمر. (طبرانی عن ميمونة) (۱)

معجم الکبیر للطبرانی میں یہ روایت یوں ہے:

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَدَقَةَ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ بْنُ جَعْفَرٍعَنْ عُقْبَةَ بْنِ كَثِيرٍعَنْ خِرَاشٍعَنِ ابْنِ عَبْدِ اللهِ عَنْ مَيْمُونَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ بَيْنَ صَفِّ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ إِذَا سَمِعْتُنَّ أَذَانَ هَذَا الْحَبَشِيِّ وَإِقَامَتِهِ فَقُلْنَ كَمَا يَقُولُ، فَإِنَّ لَكُنَّ بِكُلِّ حَرْفٍ أَلْفَ أَلْفَ دَرَجَةٍ فَقَالَ عُمَرُ: هَذَا لِلنِّسَاءِ فَمَا لِلرِّجَالِ؟ قَالَ: ضِعْفَانِ يَا عُمَرُثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النِّسَاءِ فَقَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ مِنِ امْرَأَةٍ أَطَاعَتْ وَأَدَتْ حَقَّ زَوْجِهَا وَ تَذْكُرُ حُسْنَهُ وَلَا تَخُونَهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهِ إِلَّا كَانَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الشُّهَدَاءِ دَرَجَةً وَاحِدَةً فِي الْجَنَّةِ، فَإِنْ كَانَ زَوْجُهَا مُؤْمِنًا حَسَنَ الْخُلُقِ فَهِيَ زَوْجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ وَإِلَّا زَوَّجَهَا اللَّهُ مِنَ الشُّهَدَاءِ (۲)

ترجمہ: میمونہ رضی اللّٰہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن نبی ﷺ مردوں اور عورتوں کی صفوں کے درمیان کھڑے ہو گئے اور کہا: اے عورتوں کی جماعت! جب تم اس حبشی کی اذان اور اقامت سنو تو تم بھی اسی کی طرح کہنا، کیونکہ ہر لفظ کے بدلے تمہارے ہزار ہزار درجے بلند کیے جائیں گے تو عمر رضی اللّٰہ عنہ نے کہا: یہ تو عورتوں کے لیے ہے مردوں کے لیے کیا اجر ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: دگنا اجر ہے اے عمر! پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عورتوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہے، اس کا حق ادا کرتی ہے، اس کی اچھائی بیان کرتی ہے اور اپنے نفس اور اس کے مال میں خیانت نہیں کرتی تو جنت میں اس کے اور شہداء کے درمیان صرف ایک درجے کا فرق ہوگا، اگر اس کا شوہر مومن، اچھا اخلاق والا ہوگا تو وہ جنت میں بھی اس کا شوہر ہوگا ورنہ اللہ تعالیٰ اس کا نکاح شہداء میں سے کسی سے کرا دے گا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ شُعَيْبٍ السِّمْسَارُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّرْجُمَانِيُّ حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ كَثِيرٍعَنْ عَبْدِ اللهِ الْجَزَرِيِّعَنْ مَيْمُونَةَ قَالَتْ قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ صَفِّ الرِّجَالِ وَصَفِّ النِّسَاءِ فَقَالَ لِلنِّسَاءِ: إِذَا سَمِعْتُنَّ أَذَانَ هَذَا الْحَبَشِيِّ فَقُلْنَ كَمَا يَقُولُ۔ (۳)

حضرات محدثین نے اس حدیث کے طرق کی تنقید میں فرمایا ہے کہ ان میں یا تو ضعف و سقم ہے، مگر کسی نے اس حدیث کو با قاعدہ موضوع قرار نہیں دیا۔ 

ضعیف روایات پر جو فضائل سے متعلق ہیں، درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے عمل کرنا جائز ہے:

الف۔ حدیث میں شدید نوعیت کا ضعف نہ پایا جاتا ہو۔

ب۔ حدیث کو کسی اصل شرعی کے تحت داخل کیا جاسکتا ہو۔

ج۔ عمل کرتے ہوئے اس حدیث کے ثابت شدہ ہونے پر یقین نہ رکھا جائے بلکہ احتیاطاً عمل کیا جائے۔ (۴)

ان شرائط کو سامنے رکھ کر مذکورہ بالا حدیث پر عمل کرنے کی کچھ گنجائش معلوم ہو رہی ہے۔ 

رہا یہ سوال کہ مردوں کو دگنا ثواب کیوں ملےگا؟ تو اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مردوں پر اذان اور اقامت کا عملی جواب دینا (یعنی مسجد جانا اور وہاں پر با جماعت نماز پڑھنا) لازم ہے، جبکہ عورتوں پر مسجد جانا اور با جماعت نماز پڑھنا لازم نہیں۔ لھذا اگر کوئی مرد اذان اور اقامت کا جواب دے – اور اقامت کا عملی جواب دینا صرف مسجد میں ہی ممکن ہے – تو وہ اپنے واجب کو ادا کرنے کی وجہ سے دگنے ثواب کا مستحق ہوگا۔

• (۱) رقم الحدیث: ۲۱۰۱۰

• (۲) معجم الکبیر: ۲۸، منکر جدا

• (۳) الدعا للطبرنی:۴۴۱؛ الترغیب و الترھیب: ۱/ ۱۵۰، و فیہ نکارۃ

• (۴) شَرْطُ العَمَلِ بالحدیث الضعیف ثلاثۃٌ: الأوّل مُتَّفَقٌ علیہ،وھوأنْ یکونَ الضُعفُ غیرَ شدیدٍ، فیَخْرُجُ مَن انْفَرَدَ مِنَ الکَذّابِین والمُتّہَمِین ومَنْ فَحُشَ غَلَطُہ، والثاني:أن یکونَ مُندَرِجاً تحتَ أصلٍ عامٍ، فیخرُج ما یُخْتَرَعُ بحیثُ لا یکون لہ أصلٌ أصلاً، والثالث:أن لا یُعْتَقَدَ عند العَمَلِ بہ ثبوتُہ لئلا یُنْسَبَ إلی النبي صلّی اﷲ علیہ وسلّم ما لم یَقُلْہ۔ (تدریب الراوی: ۱ / ۲۹۸)

فقط ۔ واللہ اعلم 

قمری تاریخ: ۲۸ جمادی الأخریٰ ١٤٤٠ھ

عیسوی تاریخ: ۶ مارچ ۲۰۱۹

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں