غیر مسلم کے ہاتھ کا پکا کھانا کھانے کا حکم

غير مسلم ہاتھ کا بنا کھانا مسلم کھا سکتے ہیں؟ اکثر گھروں میں غیر مسلم کھانا پکاتے ہیں؟ 

الجواب حامد و مصليا 

مسلمان کے لیے غیرمسلم کے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا کھانا جائز ہے، بشرطیکہ اس کے ہاتھ میں نجاست اور حرام اشیاء نہ لگی ہو۔ اس میں غیرمسلم کتابی یہودی اور عیسائی یا غیرکتابی ہندو، سکھ، بدھ، جین اور دھریے وغیرہ کا کوئی فرق نہیں۔ البتہ ایسے غیرمسلم جو اہلِ کتاب میں سے نہ ہو اس کے ہاتھ کا ذبیحہ جائز نہیں ہے۔ اگر کسی غیرکتابی نے کوئی حلال جانور بھی ذبح کیا تو اس کا گوشت مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے، حرام ہے۔ کیونکہ غیراہلِ کتاب ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیتے اس لیے ان کا ذبیحہ حرام ہے، چاہے اسے کوئی ہندو پکائے یا مسلمان۔ اگر جانور کو مسلمان یا اہلِ کتاب نے ذبح کیا اور ہندو نے پکایا تو پھر کھانا جائز ہے۔ جہاں تک احتیاط اور نظافت کی بات ہے تو ایسے مسلمان سے پکوانا جو پاک صاف رہتا ہو، زیادہ بہتر ہے_

الْمَآئِدَة:٥/٥

الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ.

مشكوة:٤/٢٥

وعن قبيصة بن هلب عن أبيه قال : سألت النبي صلى الله عليه و سلم عن طعام النصارى وفي رواية : سأله رجل فقال : إن من الطعام طعاما أتحرج منه فقال : ” لا يتخلجن في صدرك شيء ضارعت فيه النصرانية ” رواه الترمذي وأبو داود_

عالمگريه:٣٤٧/٥

ولا بأس بطعام اليهود والنصارى كله من ذبائح وغيرها ويستوى الجواب بين أن يكون اليهود والنصارى من أهل الحرب…. الخ

ابن كثير:٣٤٦/٢

وأما نجاسة بدنه فالجمهور على انه ليس بنجس البدن والذات لأن الله تعالى احل طعام أهل الكتاب 

عالمگريه:٣٤٧/٥ 

قال محمد رحمه الله:ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل و مع هذا لو أكل أو شرب منها قبل الغسل جاز، ولا يكون أكثر أكلا ولا شاربا حراماً، وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني_

عالمگیريه:٣٤٧/٥

ولا بأس بالذهاب إلى ضيافة أهل الذمة 

والله اعلم بالصوب 

عائشه وقار ابراہیم 

جامعة السعيد

نرسري كراتشي

ذي القعدة ١٤٣٧

٨اگست٢٠١٦

اپنا تبصرہ بھیجیں