حالت حیض میں عمرہ کاحکم

فتویٰ نمبر:980

سوال: میں مکہ میں ہوں کل بروز جمعہ میں نے مسجد جعرانہ سے عمرہ کی نیت کی عصر کی نماز کے بعد،اس کے بعد نماز مغرب حرم میں ادا کرنی تھی تو مجھے حیض کے دھبے شروع ہوگئے جبکہ میں حیض روکنے کی ادویات ایک ماہ سے لے رہی ہوں ،عمرہ ادا نہیں ہوا ،کل پاکستان روانگی ہے

جلد جواب درکار ہے ۔

والسلام

الجواب حامداو مصليا

اگر عورت نے حالتِ حیض میں عمرہ کا احرام باندھا یا احرام باندھنے کے بعد حیض آگیا مثلاً: گھر سے مکہ مکرمہ کے لیے نکلتے وقت حیض تھا اور اسی حالت میں احرام باندھنا پڑا یا احرام باندھنے کے بعد حیض آگیا تو مکہ مکرمہ جانے کے بعد پاک ہونے کا انتظار کرے اور پاک ہونے کے بعد غسل کر کے عمرہ کرلے، لیکن اگر واپسی سے پہلے پہلے حیض سے پاک ہوکر عمرہ کرنے کی کوئی صورت نہ ہو، یعنی ویزا بڑھانے کی یا محرم کے ساتھ رہنے کی کوئی صورت نہیں تو مجبوراً حالتِ حیض ہی میں عمرہ کرلے اور حرم کی حدود میں ایک دم (قربانی ) دے دے۔

لہذا مجبوری کی وجہ سے اسی حیض کی حالت میں عمرہ ادا کرلیا جائے اور حدودحرم میں ایک دم (قربانی ) دےدےتو احرام سے نکل جائے گی ۔

إعلاء السنن (۱۰ ؍ ۳۱۷ )

“عن عائشة عن النبي ﷺ قال : الحائض تقضي المناسک کلها إلا الطواف بالبیت. رواه أحمد و ابن أبي شیبة”.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 290)

“ثم ذكر أحكامه بـ (قوله :يمنع صلاة) مطلقاً، ولو سجدة شكر، (وصوماً) وجماعاً … (و) يمنع حل (دخول مسجد و) حل (الطواف) ولو بعد دخولها المسجد وشروعها فيه”.

الفتاوى الهندية (1/ 222)

“وإذا أراد الإحرام اغتسل أو توضأ، والغسل أفضل إلا أن هذا الغسل للتنظيف حتى تؤمر به الحائض، كذا في الهداية”.

الفتاوى الهندية (1/ 38)

“(ومنها): أنه يحرم عليهما وعلى الجنب الدخول في المسجد سواء كان للجلوس أو للعبور … (ومنها): حرمة الطواف لهما بالبيت وإن طافتا خارج المسجد . هكذا في الكفاية. وكذا يحرم الطواف للجنب. هكذا في التبيين”.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 494)

“[تنبيه]نقل بعض المحشين عن منسك ابن أمير حاج: لو هم الركب على القفول ولم تطهر

فاستفتت هل تطوف أم لا؟ قالوا: يقال لها: لا يحل لك دخول المسجد وإن دخلت وطفت أثمت، وصح طوافك وعليك ذبح بدنة. وهذه مسألة كثيرة الوقوع يتحير فيها النساء. اهـ. وتقدم حكم طواف المتحيرة في باب الحيض فراجعه”.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 550)”

“(أو طاف للقدوم)؛ لوجوبه بالشروع (أو للصدر جنباً) أو حائضاً (أو للفرض محدثاً ولو جنباً فبدنة إن) لم يعده، والأصح وجوبها في الجنابة، وندبها في الحدث، وأن المعتبر الأول، والثاني جابر له، فلا تجب إعادة السعي، جوهرة. وفي الفتح: لو طاف للعمرة جنباً أو محدثاً فعليه دم ، وكذا لو ترك من طوافها شوطاً؛ لأنه لا مدخل للصدقة في العمرة … (قوله: بلا عذر) قيد للترك والركوب. قال في الفتح عن البدائع: وهذا حكم ترك الواجب في هذا الباب اهـ أي أنه إن تركه بلا عذر لزمه دم، وإن بعذر فلا شيء عليه مطلقاً. وقيل: فيما ورد به النص فقط، وهذا بخلاف ما لو ارتكب محظوراً كاللبس والطيب، فإنه يلزمه موجبه ولو بعذر، كما قدمناه أول الباب”.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 523)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:25صفر1440ھ

عیسوی تاریخ:4نومبر2018

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں