حق مہر زیادہ مقرر کرنے کا حکم

﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۲۷﴾

سوال:–        بہت زیادہ مہر مقرر کرنا کیسا ہے؟

جواب :-       مہر بہت زیادہ مقرر کرنا شرعاً پسندیدہ نہیں ،خصوصاً جبکہ دینے کا ارادہ نہ ،اور دکھلاوا مقصود ہو  تو ناجائز ہے۔البتہ بہت کم مہر مقرر کرنا بھی مطلوب نہیں ،بلکہ اگر کسی خاندان میں مہر مثل زیادہ ہوتو   جب تک سارے خاندان کا عرف تبدیل نہ کیا جائے  اس وقت تک تنہا ایک لڑکی یا س کے  اولیا ء  کو کم مہر پر مجبور کرنا بھی درست نہیں ۔(امداد المفتین:473)

مشكاة المصابيح – (2 / 958)

عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: ألا لا تغالوا صدقة النساء فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا وتقوى عند الله لكان أولاكم بها نبي الله صلى الله عليه وسلم ما علمت رسول الله صلى الله عليه وسلم نكح شيئا من نسائه ولا أنكح شيئا من بناته على أكثر من اثنتي عشرة أوقية. رواه أحمد

ترجمہ:”حضرت عبداللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو!سنو عورتوں کے مہر کو زیادہ نہ رکھو کیونکہ یہ اگر دنیا میں عزت کی بات ہوتی تو تم سب میں  سے اس کے زیادہ مستحق اللہ کے نبی ﷺ ہوتے اور آپ  ﷺ مہر زیادہ رکھتے۔ میں نہیں جانتا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے اپنی ازواج میں سے کسی سے نکاح کیا ہوا یا اپنی بیٹی کا نکاح کیا ہو 12 اوقیہ چاندی سے زیادہ پر“

تاہم اگر مہر زیادہ مقرر کر دیاجو مرد کی حیثیت سے زیادہ ہے تو وہ اس مرد پر لازم ہو جائے گا اور نکاح ہوجائے گا۔

رد المحتار باب المہر ج 2ص454

قولہ یجب الاکثر ای بالغا ما بلغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقط والله تعالیٰ اعلم

 صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر

اپنا تبصرہ بھیجیں