ہاتھ اور پیر کٹا ہونے کی صورت میں وضو کا حکم

سوال: ہماری مارکیٹ میں ایک شخص ہے اس بیچارے  کا ایک ہاتھ اور ایک پیر نہیں ہے۔اس کے لیے وضو کا کیا حکم ہے؟

سائل:جنید شاہ

الجواب حامدا ومصلیا

شریعت نے انسان کو اس کی طاقت کے بقدر مکلف بنایا ہے،صورت مسئولہ میں یہ شخص صحیح سالم ایک ہاتھ  ایک پیر  دھوئے گا،سر کا مسح کرے گا۔باقی ہاتھ پیر میں سے اگر کلائی اور کہنی کا کچھ حصہ ہے یا پیر کے پنجے اور ٹخنے میں سے کچھ حصہ باقی ہو تو اس بقیہ حصہ کا دھونا ضروری ہےلیکن اگر ہاتھ اور پیر بالکل کہنی اور ٹخنے سمیت نہ ہوں تو دھونے کا حکم بھی ساقط ہوجائے گا.

        فی البحر الرائق :کتاب الطهارة  ۱/۲۲۹ رشیدیه

ولو قطعت يده أو رجله فلم يبق من المرفق والكعب شيء سقط الغسل، ولو بقي وجب

          رد المحتار اور فتاوی ہندیہ میں بحر الرائق کی درج بالا عبارت ہی اختیار کی گئی ہے۔( شامی ۱/۲۲۹ رشیدیہ)۔(ہندیہ۱/۸)

          فی بدائع الصنائع : کتاب الطهارة ۱/۶۸ عثمانیه

ولو قطعت يده من المرفق، يجب عليه غسل موضع القطع عندنا خلافا له لدخوله تحت مطلق اسم اليد، فيكون عملا باللفظ بالقدر الممكن

واللہ اعلم بالصواب

محمد عثمان خان غفرلہ ولوالدیہ

نور محمد ریسرچ سینٹر

۱۱/۱/۱۴۴۱ھ

2019/9/11

اپنا تبصرہ بھیجیں