ہندو کے ہاتھ کا پکا ہواکھانا کھانے کا حکم

1-اگر پڑوس میں ہندو رہتے ہوں تو ان کے گھر کی پکی چیز کھا سکتے ہیں؟

2-اگر وہ ہمارے گھر آ ئیں تو اپنے استعمال کے برتنوں میں ان کو کھانا دے سکتے ہیں؟

الجوا ب بعون الملک الوھاب

1-اگر پکانے والے کا کھانا اور برتن پاک ہیں تو کھانا جائز ہے اور اگر یہ علم ہو کہ ان کے برتن ناپاک ہیں یا کھانا حرام ہے تو ہرگز کھانا درست نہیں۔ اصل میں ظاہری طہارت و نجاست کا تعلق اسلام اور کفر سے نہیں بلکہ کفر در حقیقت باطنی نجاست ہے اور قرآن کریم میں ” انما المشرکون نجس” کہنے کی وجہ بھی اعتقادی نجاست ہے ظاہری ناپاکی مراد نہیں کیونکہ غیر مسلم بذات خود ناپاک نہیں ہوتا اگر اس کے جسم پر ناپاکی ہو تبھی ناپاکی کا حکم لگتا ہے ورنہ نہیں۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کافر کو ہاتھ بھی لگایا ہے،کافر کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا بھی کھایا ہے، ان کے ہدایا کو بھی قبول فرمایا ہے اسی وجہ سے ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا حلال اور پاکیزہ ہے۔

البتہ دوسرے کفار کی بہ نسبت ہندو کچھ غلیظ الطبع اور نجاست کے ساتھ زیادہ آ لودہ رہتے ہیں اس لیے ان کی پکائی ہوئی چیزوں سے پرہیز کرنا اولی اور بہتر ہے لیکن نجس ہونے کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔

2- اگر وہ گھر آ ئیں تو اپنے برتنوں میں کھانا دے سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں البتہ ایسااختلاط جس سے دینی حمیت ختم ہونے کا اندیشہ ہوتو ایسے کفار سے میل جول رکھنے اور ان کے ساتھ کھانے پینے سے احتیاط بہتر ہے اور بلا ضرورت کفار سے ربط اور تعلقات رکھنا منع ہے۔

” لما قال العلامہ طاہر بن عبد الرشید البخاری :والاکل والشرب فی اوانی المشرکین مکروہ ٬ولا باس بطعام المجوس الا ذبیحتہم وفی الاکل معھم عن الحاکم عبد الرحمن کو ابتلی بہ المسلم مرہ اس مرتین٬ لا باس بہ٬ اما الدوام علیہ فمکروہ” ( خلاصہ الفتاویٰ:4/346کتاب الکراھیہ)

“ولا باس بطعام المجوس کلہ الا الذبیحہ، فان ذبیحتہم حرام ،ولم یذکر محمد الاکل مع المجوس ومع غیرہ من اھل الشرک انہ ھل یحل ام لا ،وحکی دن الحاکم الامام عبد الرحمن الکاتب : ان ابتلی بہ المسلم مرہ او مرتین،واما الدوام علیہ،فیکرہ،کذا فی المحیط”(العالمکیریہ: 4/277) 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم 

بنت سعید الرحمن

صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر 

16 جمادی الاولی 1439ھ

3 فروری 2018ء

اپنا تبصرہ بھیجیں