استخارہ کاحکم

فتویٰ نمبر:1016

سوال:اگرآپ.نےاستخارہ کیااوراس میں کام کےکرنےکاآیالیکن.آپ کادل نہ ماناپھربھی اسکےبرخلاف کام کرلیاجائےاوراسکےبعداس کیے گئے کام میں مسئلےآنےشروع ہوگئےتووہ.مسئلےکب تک چلیں گے؟انسان کواستخارےپر عمل نہ کرنےکی سزاکب تک ملےگی..اوراب کیا کرنا چاہیے؟

سائلہ:زاہدہ 

   الجواب بعون الملک الوہاب 

استخار ے کے معنی ہیں: خیر طلب کرنا، یعنی: اپنے معاملے میں اللہ سےخیراور بھلائی کی دعا کرنا، استخارےکےبعداصل چیزدل کارجحان ہےاس میں خواب کانظرآناضروری نہیں ہے.جس طرف دل مائل ہو، اُسی میں خیرسمجھناچاہیے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا تھا: 

(“یا أنس! إذاصممتَ بأمر،فاستخررَبَّک فیہ سبع مرات، ثم انظرإلی الذی سبق إلی.قلبک،فإن الخیرَفیہ”) 

(شامی: ۲/۴۰۹-۴۱۰، دار إحیاء التراث العربی)

ترجمہ!اے انس جب کسی کام کا پختہ ارادہ کرو تو اپنے رب سے سات دفعہ استخارہ کرو پھر دل میں جو خیال 

آئےتو اسی میں تمھارے لیے بھلائی ہے.

حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: استخارے کی حقیقت یہ ہے کہ استخارہ ایک دعا ہے جس سے مقصود طلب اِعانت علی الخیر ہےیعنی استخارےکےذریعے بندہ خدا تعالی سے دعا کرتا ہے کہ میں جو کچھ کروں، اُسی کے اندر خیر ہو اور جو کام میرے لیےخیرنہ ہو،وہ کرنے ہی نہ دیجیے ۔اب اگر دل نہ ماننے کے باوجود,اس پر عمل کردیاہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ ایک سزا ہے بلکہ اس ناکامی کو بھی خدا کی طرف سے سمجھنا چاہیے، اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ کسی بڑی پریشانی سے بچاکر چھوٹی پریشانی بھیج دی ہو، اور یہ بھی ایک طرح کی خیر ہے، نیز اس کے علاوہ اور بھی مصلحتیں ہوسکتی ہیں، اس لیے ہرحال میں رضا بالقضا رہنا چاہیے۔ علما نے لکھا ہے کہ استخارے کی خلاف ورزی گناہ نہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم

بنت گل رحمن عفی عنھا 

صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر 

14مئ2018

اپنا تبصرہ بھیجیں