مرحومین کی ڈیجیٹل تصاویر اور ویڈیوز کا حکم

سوال: کیا مرحوم والدین کی تصاویر اور ویڈیوز موبائل میں رکھی جاسکتی ہیں؟ اس سے مرحومین پر کوئی اثر تو نہیں پڑے گا، ان کو تو گناہ نہیں ہوگا؟
الجواب باسم ملھم الصواب
چونکہ ڈیجیٹل تصاویر ہمارے علماء کے نزدیک ناجائز تصاویر کے زمرے میں تو نہیں آتیں، اس لیے اگر کسی کی ڈیجیٹل تصویر یا ویڈیو موبائل میں موجود ہو تو انتقال کے بعد اس کو ڈیلیٹ کرنا لازم نہیں۔ تاہم چونکہ بعض دفعہ ان تصاویر کو دیکھ کر غم تازہ ہوجاتا ہے، نیز یہ ایک بے مقصد کام بھی ہے اس لیے ان تصاویر کو اہتمام کے ساتھ موبائل میں محفوظ رکھنا پسندیدہ عمل نہیں ہے۔
=======================
حوالہ جات:

1۔ عن ابی ھریرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” إن من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه “
(جامع الترمذی:2317)
ترجمہ:حضرت ابو ھریرة رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں کو چھوڑ دے جو اس سے غیر متعلق ہوں“۔

2۔ ولا بأس بنقله قبل دفنه وبالإعلام بموته وبإرثائه بشعر أو غيره …وبتعزية أهله وترغيبهم في الصبر وباتخاذ طعام لهم وبالجلوس لها في غير مسجد ثلاثة أيام، وأولها أفضل. وتكره بعدها إلا لغائب. وتكره التعزية ثانيا
(قوله وتكره بعدها) لأنها تجدد الحزن منح والظاهر أنها تنزيهية، ط. (قوله إلا لغائب) أي إلا أن يكون المعزي أو المعزى غائبا فلا بأس بها جوهرة. قلت: والظاهر أن الحاضر الذي لم يعلم بمنزلة الغائب كما صرح به الشافعية (قوله وتكره التعزية ثانيا) في التتارخانية: لا ينبغي لمن عزى مرة أن يعزي مرة أخرى رواه الحسن عن أبي حنيفة. اه إمداد
(ردالمحتار علی الدرالمختار : 173/3-177)

واللہ اعلم بالصواب

3 رجب 1444ھ
25 جنوری 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں