پریمیم بانڈز کا حکم

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

محترم جناب مفتی صاحب

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ حکومت  نے کچھ عرصہ  قبل ایک نیا پریمیم پرائز بانڈ جاری کیاہے  ۔ جس میں حامل بانڈ کو  بہت  سی سہولیات  سے نوازا جاتا ہے  مثلا سا ل میں دو مرتبہ  اس پر  نفع دیاجاتا ہے  اور ہر چار ماہ بعد اس  پر انعام جاری  کیاجاتا ہے  ۔ نیز ان بانڈز کو بازار میں قیمت  اسمیہ یا اس سے زائد پر فروخت کرنا  بھی  جائز ہے ۔

کیا ایسے بانڈز کی خرید ورفروخت جائز  ہے ؟

 اگر اس کو قیمت  اسمیہ سے زائد پر فروخت  کرے تو جائز ہے؟

برائے مہربانی  اپنی قیمتی  رائے سے آگاہ کریں  ۔

جزاکم اللہ

عبداللہ

 الجواب حامداومصلیا ً

 یسنل  سیونگ منسٹری  آف فائنانس کی ویب سائٹ  سے اخذ کردہ معلومات  کے مطابق   حکومت نے  نئے پریمیم بانڈز کا اجراء کیاہے  جس کی تفصیل  یہ ہے کہ  حکومت  کم سے کم  چالیس ہزار روپے کا ایک  بانڈ خریدنے  والے کو جاری کرتی ہے ۔ اور خریدنے والے کو  بہت سی  سہولیات  سے نوازا جاتاہے  جن میں سے چند  اہم مندرجہ ذیل  ہیں :

 1۔ سال میں  دومرتبہ   1.5  فیصد  نفع ادا کیاجاتا ہے  ۔

2۔ ہر چار ماہ بعد اس کو قرعہ اندازی س کے ذریعے انعام  دیاجاتا ہے  ۔

3۔سب سے زیادہ انعام  کی حد آٹھ  کروڑروپے  ہوگی ۔

4۔  یہ بانڈزکوٰۃ کی ادائیگی سے  مستثنیٰ ہوں گے ۔

5۔ ان بانڈز کو خریدنا ، بیچنا  اور بطور  رہن  رکھوایا جاسکے گا ۔

مندرجہ  بالا خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہویئ واضح  رہے کہ مذکورہ  معاملے میں  فقہی تکییف یہ ہے کہ حامل  بانڈ  جو رقم  حکومت کو دیتااہے  اس کی حیثیت شرعاً قرض  کی ہوتی ہے اور بانڈ محض  اس کی ایک رسید ہوتا ہے۔ جیسا کہ منسلکہ اشتہار سے بھی معلوم ہوتا ہے  کہ “no risk  of loss/thef/burnet ” یعنی حامل بانڈ کو کسی بھی  طرح کے نقصان  کا کوئی خطرہ  نہیں ہے ۔ اور یہ خصوصیت صرف قرض  کے معاملے میں پائی جاتی ہے  ۔

ایسے بانڈز کی خرید وفروخت   کے بارے میں حکم یہ ہے کہ مذکورہ  بانڈ خریدنا اور بیچنا   مندرجہ ذیل  وجوہات  کی وجہ سے جائز نہیں :

1۔ ویب سائٹ  سے اخذ کردہ معلومات  کے مطابق  حکومت  اس قرض  پرسال میں دوم مرتبہ  حامل بانڈ کو پہلے  سے طے شدہ   1.5 فیصدادا کرتی ہے جو کہ سراسر   ربا ہے  اورربا کا لین دین  حرام اور ناجائز  ہے ۔

2۔ ویب سائٹ  سے اخذ کردہ معلومات  کے مطابق  حکومت  اس قرض   پر ہر  چار ماہ  بعد انعامی رقم  جاری کرتی ہے   ( جوکہ جارہ کردہ   1.5 فیصد کے علاوہ ہے  ) اور قرض  پر مشروط  ایسی زیادتی  سراسر رباہے  اور ربا کا لین دین حرام اور  ناجائز ہے۔

3۔ ویب سائٹ  سےا خذ کردہ معلومات  کے مطابق  حامل   بانڈ ا س کو  فروخت   کرسکتا ہے  ۔ اگر حامل  بانڈ اس کو قیمت  اسمیہ ( face value ) سے زائد  یا کم قیمت  پر فروخت  کرے تو یہ بھی ربا  میں شامل اور سراسر  حرام ہے۔ اور اگر اس کو قیمت  اسمیہ پر ہی فروخت  کرتا ہے  تو یہ بیع الدین من غیر  من علیہ الدین  میں شامل  ہونے کی وجہ سے  جمہور فقہائے کرام  کے نزدیک جائز نہیں  ہے۔ س لیے اس بانڈ  کو قیمت  سمیہ ، کم یا زئد  قیمت پر فروخت  کرنا جائز نہیں ہے۔

4۔ ویب سائٹ  سے اخذ  کردہ معلومات  کے مطابق  حامل  بانڈ اس کو رہن  رکھواسکتا ہے ۔ جبکہ علمائے معاصرین  کی متفقہ  رائے  کے مطابق  ہر ایسی  چیز  جس کو شرعاً خریدا  اور بیچا نہیں جاسکتا  اس کو  رہن  بھی نہیں رکھوا یا جاسکتا ۔ا س لیے   مذکورہ  بانڈ  کو رہن رکھوانا  بھی جائز نہیں  ہے۔ ( ماخذہ  : معاییر  شرعیہ / معیار  رہن ص 536 )

ان تما م تر تفصیلات کی روشنی میں اس بانڈ کو خریدنا ، بیچنا خواہ قیمت اسمیہ پر ہی کیوں نہ ہو اور رہن  رکھوانا جائز نہیں ہے کیونکہ برائز  بانڈ کا یہ معاملہ  رہا، غرر جیسے معاملات  پر مشتمل ہے ۔ایسے  معاملات سے بچنا لازم  ہے۔

دارالافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور

18/جمادی الثانی  /1438

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/522617124774204/

اپنا تبصرہ بھیجیں