”رمضان اور اعتکاف“
“رمضان کے آخری عشرے میں 20 ویں روزے کو سورج ڈوبنے سے پہلے ”مردوں”کو مسجد میں اور عورتوں کو گھر میں نماز کے لئے بنائ گئ مخصوص جگہ میں “اعتکاف”کے لئے داخل ہوجانا لازم ہے-
“اعتکاف کی قسمیں”
1-“اعتکاف واجب”یہ نذر (منت)کا “اعتکاف” ہوتا ہے-اس کے ساتھ “روزہ”رکھنا بھی لازم ہے-
2-“اعتکاف سنت”:یہ “رمضان”کے آخری عشرہ کا “اعتکاف” ہے-یہ “اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ” ہے-یعنی محلہ کی مسجد میں ایک آدمی بھی اگر “اعتکاف”کرےتو پورے محلہ کی طرف سے ذمہ داری ادا ہو جائیگی اور اگر کسی نے بھی” اعتکاف” نہیں کیا تو پورے محلے پر ترک” سنت مؤکدہ”کا گناہ ہوگا- اس “اعتکاف”کے لئے بھی روزہ شرط ہے-
3-“اعتکاف محتسب: اس کے لئے روزہ رکھنا شرط نہیں ہے-اور نہ پورادن شرط ہے-(میں اکثر عصر مغرب کے دوران اور فجر پہ ایک ہی جگہ بیٹھ کر
نماز٫ تسبیحات اور معمولات ادا کرتی ہوں تو اتنی دیر کی “اعتکاف”کی نیت کر لیتی ہوں-) اللّٰہ تعالٰی ہماری ٹوٹی پھوٹی عبادتوں کو قبول کرے آمین
“اعتکاف”کے محاسن اور “معتکف”کی مثالیں”
“محاسن(خوبیاں)”
“صاحبِ بحر الرائق” فرماتے ہیں کہ “اعتکاف” میں بہت سی خوبیاں ہیں-ایک یہ کہ بندہ اپنے دل کو “امور دنیا” سے فارغ کرکے”مولائے کریم” کی طرف متوجہ کر لیتا ہے- دل میں “اللّٰہ تعالٰی”کی یاد اور اس کا دھیان ہوتا ہے گویا ایک طرح سے ہر طرف سے منقطع ہو کر اللّٰہ تعالٰی کے گھر( مسجد) میں آ پڑتا ہے اور “مسجد” تو مومن کے لئے ایک بڑے”مضبوط قلعے کی مانند ہے- بالخصوص” حالت اعتکاف”میں٫کیونکہ مسجد سے شیطان کسی معصیت کی جگہ لے جانے سے قاصر رہتا ہے-
“معتکف”کے ظاہری حال سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کوئ “محتاج بھکاری” سب سے بڑے “شہنشاہ” کے دربار میں دست سوال درازکئے چلا آرہا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ” جو کچھ مانگوں گا” ملے گا-اور” مغفرت” چاہوں گا٫ تو” بخش “دیا جاؤنگا-
“علامہ ابن قیم رحمہ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں” “اعتکاف” کی روح ” دل کو اللہ تعالیٰ” کی ذات کے ساتھ وابستہ کرلینا ہے-“معتکف”کو چاہئے کہ اپنے “خیالات و توجہات” کو یکسو کر کے “اللّٰہ تعالٰی”کی طرف متوجہ ہو جائے٫تاکہ “اللّٰہ پاک”کی محبت دل میں سما جائے٫مخلوقات کے بجائے “اللّٰہ تعالٰی کا انس پیدا ہو جائے جو “قبر “کی وحشت میں کام ائے٫کیونکہ وہاں “رحمت خداوندی”کے سوا کوئ “مونس و غمخوار” نہ ہوگا اگر”دل”اللّٰہ جل شانہ” کی محبت سے بھر جائے تو وہ وقت کس لذت کے ساتھ گزرے گا اور بقول شاعر” دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن”
“بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے”
“معتکف” کی مختلف مثالیں”
1-معتکف سوالی بن کر”در رب”پہ پڑا رہتا ہے-
2- “معتکف” مسجد میں بسیرا کرنے والا ہوتا ہے-
3-“معتکف”سر کو محبوب کی چوکھٹ پر رکھ دینے والا ہوتا ہے-
4-“معتکف”ایک” نماز” کے بعد دوسری’ نماز”کا انتظار کرنے والا ہوتا ہے-
5-“معتکف”فرض با جماعت کا ثواب ہر وقت حاصل کرتا ہے-
6-“معتکف”ایک طرح سے فرشتوں سے مشابہ ہو جاتا ہے-(فرشتوں کی طرح ہر وقت تسبیح و تقدیس میں لگا رہتا ہے)
7-” معتکف” اصحابِ علیین” میں شمار ہوتا ہے- حضرت ابو امامہ رضی اللّٰہ عنہ”سے روایت ہے کہ”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نے فرمایا”جو شخص ایک نماز کے بعد دوسری نماز اس طرح پڑھے کہ درمیان میں کوئ لغو کام نہ کرے تو اس کو “علیین”میں لکھ دیا جاتا ہے-
8-“معتکف”احب البلاد” یعنی مسجد میں جا بستا ہے-
9-“معتکف” کو قیامت کے دن “عرشِ الٰہی”کے سایہ میں جگہ ملنے کی امید ہوتی ہے-
10″-معتکف” مسجد کے اوتاد (میخ) کی طرح ہوتا ہے-(جیسے میخ اپنی جگہ گڑی رہتی ہے٫اسی طرح ” معتکف”بھی پورا عشرہ مسجد میں ہی ٹھرا رہتا ہے-(سبحان اللّٰہ)
یا اللہ! ہمیں ان با برکت گھڑیوں سے صحیح تعلق عطاء فرما٫ہماری
غفلتوں کو دور کر٫ہم پر اس ماہ مبارک کی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما آمین-
( جاری ہے)
حوالہ: تحفہء رمضان
مرسلہ:خولہ بنت سلیمان