”رمضان المبارک“ (ساتواں حصہ)

”افطار کا بیان“

“احکم الحاکمین اللّٰہ سںبحانہ تعالیٰ”کا ارشادہے

“ثم اتموا الصیام الی اللیل(“البقرہ)

“پھر “صبحِ صادق” سے “رات” کے آنے تک روزہ پورا کر لیا کرو-اس آیت میں روزہ کے آ”خری وقت کا بیان ہے-

“سرکارِ دوعالم حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ” نے ارشاد فرمایا –

“جب “رات” ادھر سے (مشرق)اجائے اور” دن” ادھر سے(مغرب)چلا جائے اور “آفتاب” ( بالکل)غروب ہو جائے تو” روزہ دار” “صاحب افطار”ہو گیا” ( متفق علیہ)

“میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”جب روزے سے ہوتے تو “غروبِ آفتاب” کے وقت کسی شخص کو کسی بلند مقام (ٹیلہ ) پر کھڑے ہونے کےلئے ارشاد فرماتے”پھر جب وہ شخص “غروبِ آفتاب” کی اطلاع دیتا تو”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”روزہ افطار فرمالیتے”(طبرانی)

معلوم ہوا کہ “روزہ” کھولنے کا آخری وقت”غروبِ آفتاب”ہے-

“جلدی افطار کر نے کی فضیلت”

“حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ”سے روایت ہے کہ “اللّٰہ تعالٰی”کا ارشادہے کہ “اپنے بندوں میں مجھے سب سے زیادہ وہ بندہ محبوب ہے جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرلے” ( رواہ ترمذی)

“تین چیزیں “اللّٰہ تعالٰی”کو پسند ہیں”

“حدیثِ قدسی”ہے کہ”خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وسلم'” نے فرمایا کہ” “اللّٰہ پاک کو تین چیزیں پسند ہیں-

1-غروب افتاب'” ہوتے ہی فورا افطار کرنا”

2-اخیر وقت میں سحری کرنا-

3- “نماز میں( بحالت قیام)ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھنا”-( افطار میں تاخیر کرنا یہود ونصاریٰ اور اہل تشیع کا کام ہے)

“تعجیل افطار”اور “تاخیر سحری” کا مطلب اور مقصد”

“حضرت سہل بن سعد رضی اللّٰہ عنہ” سے روایت ہے کہ”حدیثِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”ہے”ماعجلوا الفطر”و آخرا السحور” یعنی “امت” اس وقت تک “خیر” پر رہے گی اور اس کے حالات اچھے رہینگے جب تک “افطار” میں تاخیر نہ کرنا”بلکہ جلدی کرنا اور سحری میں جلدی نہ کرنا بلکہ تاخیر کرنا”اس کا طریقہ اور طرزِ عمل رہے گا-

اس میں راز یہ ہیں کہ یہ

“اللّٰہ تعالٰی جل شانہ”کا حکم ہے -اس میں “عام بندگان خدا”کے لئے سہولت ہے-اور آسانی کے ساتھ “اللّٰہ تعالٰی”کی رحمت اور نگاہ کرم کا ایک مستقل وسیلہ ہے-

روزہ “افطار “کرنے میں جلدی کرنا سنت ہے اور”شرعی عذر” کے بغیر بلاوجہ تاخیر کرنا”مذموم اور برا ہے-وقت ہوجانے پر جلد ہی “افطار کرنے کا حکم ہے-

“تعجیل افطار”

شفیع المذنبین صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے ارشاد فرمایا “جب تک “میری امت”کے لوگ “افطار”میں جلدی کرتے رہیں گے٫وہ خیر پر رہیں گے-“

“افطار کے لئے کیا چیز بہتر ہے”

“حضرت سلمان بن عامر رضی اللّٰہ عنہ” سے روایت ہے کہ”سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نے فرمایا کہ “جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ “کھجور” سے روزہ”افطار کرے٫اگر کھجور”نہ پائے تو پھر پانی ہی سے افطار کرے٫اس لئے کہ پانی نہایت پاکیزہ چیز ہے-

“رحمۃ اللعالمین احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” “مغرب” کی نماز سے پہلے چند” تر کھجوروں” سے روزہ افطار فرماتے تھے٫اگر” تر کھجوریں” نہ ہوتیں تو” خشک کجھوروں” سے افطار فرماتے تھے اور اگر “خشک کھجوریں” بھی نہ ہوتیں تو “چند گھونٹ پانی” پی لیتے تھے-

٫

“رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”جب روزہ افطار فرماتے تو کہتے تھے:”اللھمہ لک صمت وعلی رزقک افطرت”

“اے اللہ! میں نے تیرے ہی واسطے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کر لیا-“

“افطار ک بعد کی دعا”

“حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ” سے روایت ہے کہ”رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” جب روزہ افطار فرما لیتے تو کہتے تھے”:ذھب الظماء وبتلت العروق وثبت الاجر ان شاءاللہ”

“پیاس چلی گئ٫رگیں تر ہو گئی اور اللّٰہ نے چاہا تو اجر بھی قائم ہوگیا-

یہ اللّٰہ تعالیٰ کے حضور میں”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا شکر بھی ہے اور دوسروں کو تعلیم و تلقین بھی کہ “روزہ داروں کا احساس اور یقین ایسا ہی ہونا چاہئے-

( جاری ہے)

حوالہ: تحفہء رمضان

مرسلہ: خولہ بنت سلیمان

اپنا تبصرہ بھیجیں