“رمضان اور تراویح”
“تراویح”رمضان المبارک” کی” مخصوص” عبادت ہے-
“تراویح”سنت مؤکدہ” ہے-
“احادیثِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”سے ثابت ہے کہ” تراویح” کی نماز”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کو بہت مرغوب تھی- “تراویح”پڑھنا “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کا معمول بھی تھا اور امت کو “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نےاس کے پڑھنے کا حکم بھی دیا- گو “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”سے یہ ثابت ہے کہ” تین شب” تراویح”کے لئے تشریف لائے٫اس کے بعد تشریف نہیں لائے-صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”کے تشریف نہ لانے کا سبب پوچھنے پر فرمایا “مجھے تم سب کا آنا معلوم تھا مگر میں اس لئے نہیں آیا کہ ایسا نہ ہو کہ تم پر یہ نماز” فرض” نہ ہو جائے-اس سے معلوم ہوا کہ اگر” فرض” کا اندیشہ نہ ہوتا تو”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کا تشریف لانے کا ارادہ تھا اور” پختہ ارادہ” خود عمل کے قائم مقام ہوتا ہے- پس جب “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نے “ارادہ” فرمالیا تو اس سے بھی” تراویح” کا “سنت مؤکدہ” ہونا ثابت ہوتا ہے( روح القیام)
“تراویح” اگرچہ فرض نہیں سنت مؤکدہ ہے لیکن اس کے چھوڑنے سے “اللّٰہ تعالٰی” نا خوش ہوگا- (روح القیام)
“20 رکعت “تروایح”کا ثبوت” “حدیث نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”ہے-
“ان اللّٰہ فرض لکم صیامہ و سننت لکم قیامہ”
بیشک “اللّٰہ تعالٰی نے تم پر رمضان کا روزہ فرض کیا ہے٫اور “میں” نےاس کی راتوں کا جاگنا یعنی “تراویح”پڑھنا مسنون کیا ہے- ( موطا امام مالک ) اس پر سب کا اتفاق ہے کہ “حدیث”میں”قیامہ” سے مراد” تراویح” ہے-
“عمل کے لئے ثبوت”
“عمل کے لئے اتنا” ثبوت” کافی ہے کہ”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نے اپنے قول اور عمل سےاس کو “مسنون “فرمایا ہے” اور حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ” کے زمانے سے “صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”عملاً”تراویح” کی 20 رکعتیں ہی پڑھتے آرہے ہیں-(تقلیل المنام)
1-“یحییٰ بن سعید رحمۃ اللہ” سے مروی ہے کہ”حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ”نے ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں کو “مسجد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” میں 20 رکعات”تراویح” پڑھائے-
)رواہ ابو بکر۔بن شیبہ)
2-حصرت سائب بن یزید رحمہ اللہ” سے روایت ہے کہ”حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ”کے عہد خلافت میں”صحابہ وتابعین”20 رکعات”تراویح” پڑھا کرتے تھے-(رواہ البیہقی)
3-یزید بن رومان کہتے ہیں کہ”حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ”کے زمانے سے سب لوگ” 23″رکعات (مع وتر) پڑھا کرتے تھے- ( رواہ مالک)
“تراویح”رمضان میں ہی کیوں مقرر ہوئیں؟”
“شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن”(یعنی رمضان کا مہینہ ہے جس میں “قرآن کریم”اتارا گیا- )
اور یہ “اللّٰہ تعالٰی” کا حکم بھی ہے-اسی ماہ میں “‘قران کریم” کا ختم کرنا اس وجہ سے مسنون ہے کہ “قرآن کریم” کا نزول اسی ماہ میں ہوا ہے-پس جو شخص اس” ماہِ مبارک” میں”قرآن مجید”ختم کرتا ہے وہ اس ماہ کی تمام “فیوض و برکات” کا وارث ہو جاتا ہےاور ہر قسم کی “دینی برکات”اور خیر” جو اس کو تمام سال ملتی ہیں وہ اس”عظیم الشان” مہینہ کی برکت سے آتی ہیں- کیونکہ تمام قسم کی خیرات اور بھلائیوں کا سرچشمہ یعنی “قرآن مجید”کا نزول اسی ماہ میں ہوا ہے”
“یا اللہ ہمیں” رمضان المبارک”کے ایک ایک لمحے سے “کما حقہ” فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرما-اور اپنے “محبوب”شفیع المذنبین٫رحمت اللعالمین کے امتی ہونے کی حیثیت سے “حشر”میں بھی ہم پر اپنی “رحمتیں نازل فرما” آمین ثم آمین”
(جاری ہے)
حوالہ: تحفہء رمضان
مرسلہ: خولہ بنت سلیمان