شفتل کی بیع

فتویٰ نمبر:444

 کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ گاؤں وغیرہ میں ایک فصل اگائی جاتی ہے جسکوشفتل کہتے ہیں، جو جانوروں کے لئے بطور چارہ استعمال ہوتی ہے ۔ اسکو کاٹنے کے بعد وہ دوبارہ اگتی ہے تقریب وہ سات دفعہ اس طرح اگتی ہے، اور اسکو سات پور کہتے ہیں ۔ اور عرف میں پہلی فصل کی بیع کے ساتھ ہی ساتوں پور کی بیچ کر دی جاتی ہے۔

 کیا یہ بیع  العدوم کے تحت نہیں آئے گا۔؟

استفتی : مولانا شوکت اللہ  جنڈولہ

الجواب حامدا ومصليا

 واضح رہےکہ شفتل  کی پہلے پور کے علاوہ باقی پوروں کی بیع معدوم کی بیع نہیں ہے۔ بلکہ یہ  فصل کا مالک ہونے کے بعد مشتری کی ملک میں ہونے والی بڑھوتری ہے۔ تاہم شقتل کی بیع  میں زمین بھی ایک مخصوص عرصے  تک مشتری کے زیر تصرف رہتی ہے اور یہ بات عرفاطے ہوتی ہے کہ مشتری اتنی مدت تک اس زمین سے فائدہ اٹھاتا رہے گا اس لئے زمین سے فائدہ اٹھا نا اجاره یا عاریت  ہے اور اجارہ یا عاریت بیع  میں ضمنا جمع ہورہے  ہیں جس سے عاقدین کے مابین کسی قسم کا اختلاف اور جھگڑا  نہیں ہوتا اس لئے عرف کی وجہ سے یہ معاملہ جائز ہوگا۔

 شامی : کتاب البيوع، مطلب في بيع أصل الفصفصة (٧/٢٣٧) (رشیدیه)

مطلب في بيع أصل الفصفعة قلت: بقي شيء لم أر من نبه عليه، وهو ما يكون أصله تحت الأرض ويبقی سنین متعددة مثل الفصفصة تزرع في أرض الوقف وتكون کالكردار للمستأجر في زماننا فإذابا ع ذلك الأصل و علم وجوده في الأرض صح بيعه لكنه لایری و لايقصد قلعہ، لأنه أعد للبقاء.

هكذا  في الفقہ البیوع، ١/٤٩٩

فقط: و الله اعلم بالصواب

محمد اسماعیل لکی  مروت

دارالافتاء جامعہ عمر بن  خطاب لاہور

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنے کے لیے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/556018921434024/

اپنا تبصرہ بھیجیں