شوہر کا لفظِ حرام سےطلاق معلق کرنا

فتویٰ نمبر:1007

سوال : شوہر نے اپنی بیوی کو لڑ جھگڑ کر ماں باپ کے پاس جاتے ہوئے شدید غصے میں یہ لفاظ ادا کیا ۔ 

آج کے بعد اس کی شکل دیکھی تو یہ مجھ پر حرام ہے ۔

ایک ہفتے کے بعد صلح کرانے کے لیے رشتہ داروں کے ساتھ آئے تو یہ بات نکلی تو وہ اپنے الفاظ بدل دیئے کہا کہ میں نے یہ کہا ہے ۔

آج کے بعد یہ عورت مجھ پر حرام ہے ۔

ان دونوں باتوں میں مجھے تفصیل سے فتوی چاہیے۔

زاھدہ مختار انصاری

زوجہ مختار الزماں انصاری

الجواب باسم ملہم الصواب

١ـ شوہر کا یہ کہنا کہ” آج کہ بعد اس کی شکل دیکھی تو یہ مجھ پر حرام ہے” یہ طلاق معلق ہے (طلاق کو شرط کے ساتھ معلق کرنا) اس کا حکم ہے کہ جب شرط (شوہر بیوی کا آمنا سامنا ہوگا )پوری ہوگی تو ایک طلاق بائن واقع ہو کر بیوی حرام ہوجائے گی، لفظ حرام کا عرف میں استعمال عام ہونے کی وجہ سے اس سے طلاق دینے میں طلاق کی نیت کی ضرورت نہیں۔

٢۔ شوہر کا طلاق کو معلق کرنے کا انکار کرنا جبکہ اس کے ان الفاظ پر دو گواہ موجود ہوں معتبر نہیں۔ اس لیے بیوی کا شوہر سے سامنا ہوگا تبھی طلاق بائن ہوگی اس سے پہلے نہیں۔ لیکن اگر ان الفاظ پر دو گواہ موجود نہیں تو شوہر کی بات معتبر ہے اور یوں سمجھا جائے گا کہ اسی وقت طلاق بائن ہوگئی تھی جس وقت یہ واقعہ ہوا تھا۔

یاد رہے کہ صلح کے وقت شوہر کا یہ کہنا کہ ” آج کے بعد یہ عورت مجھ پر حرام ہے” صرف “اخبار عن الاول” ہے یعنی پہلی طلاق کی خبر اور تصدیق ہے نئی طلاق نہیں ہے لہذا اس سے دوسری طلاق نہیں ہوگی ۔

٣۔ مذکورہ صورت حال میں اگر نباہ کا ارادہ ہو تو بغیر حلالہ کے دوبارہ اسی شخص سے نکاح ہوسکتا ہے، چاہے عدت چل رہی ہو یا گزرچکی ہو۔

أنت علي حرام، والفتوی أنہ یقع بہ البائن، وإن لم ینوِ لغلبۃ الاستعمال۔ (تاتارخانیۃ، ۴/۴۴۸، رقم:۶۶۳۷)

لو قال لہا: أنت علي حرام، والحرام عندہ طلاق وقع وإن لم ینو۔ (البحر الرائق، زکریا۳/۵۲۳، کوئٹہ۳/۳۰۰)

أفتی المتأخرون في أنت علی حرام بأنہ طلاق بائن للعرف بلانیۃ۔ (شامي / باب الصریح ۴؍۴۶۴ زکریا)

رجل قال لامرأتہ: ’’أنت حرام عليَّ‘‘ والحرام عندہ طلاق لکن لم ینو طلاقا وقع الطلاق۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۴؍۴۴۹ رقم: ۶۶۳۹ زکریا)

کما فی الدر المختار والشامی لکن الرجعی لا یحرم الوطی فتعین البائن وکونہ التحق بالصریح للعرف لا ینا فی وقوع البائن بہ فان الصریح قد یقع بہ البائن الخ ۔ (ردالمحتار باب الکنایات ج ۲ ص ۶۳۹۔ط۔س۔ج۳ص۲۹۹ ۱۲ ظفیر) ۔

قال لا مراتہ انت علی حرام و نحوذلک کأنت معی فی الحرام۔۔۔۔۔۔و تطلیقۃ بائنۃ ان نوی الطلاق و ثلاث ان نواہا و یفتی بانہ طلاق بائن و ان لم ینوہ لغلبۃ العرف ( الدرالمختار‘ مع ہامش رد المحتار‘ کتاب الطلاق‘ باب الایلاء ۳/۴۳۳ ،۴۳۴ط سعیدکراتشی )

قال العلامۃ الحصکفی: الصریح یلحق الصریح ویلحق البائن والبائن یلحق الصریح… لا یلحق البائن البائن اذا امکن جعلہ اخبارا۔ (الدرالمختار علی ہامش ردالمحتار ۲:۵۰۸،۵۱۰ مطلب الصریح یلحق الصریح والبائن)

لا یلحق البائن البائن (درمختار ) وقال فی الرد ( قولہ لا یلحق البائن البائن )المراد بالبائن الذی لایلحق ہو ماکان بلفظ الکنایۃ لانہ ہو الذی لیس ظاہرا فی انشاء الطلاق کذافی الفتح ( ہامش رد المحتار‘ مع الدر المختار‘ کتاب الطلاق‘ باب الکنایات ۳/۳۰۸ ط سعیدکراتشی )

اذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث فلہ ان یتزوجہا فی العدۃ و بعد انقضائہا (الفتاویٰ الہندیۃ‘ کتاب الطلاق‘ الباب السادس فی الرجعۃ‘ فصل فیماتحل بہ المطلقۃ و ما یتصل بہ ۱/۴۷۲ ط ماجدیہ‘ کوئٹہ )

واللہ اعلم بالصواب 

بنت عبدالباطن غفر اللہ لھا 

دارالافتا صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی

١٩شعبان ١٤٣٩ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں