شوہرکا یہ کہنا کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں کا حکم

پہلی طلاق اکتوبر میں 10 سے 15 تاریخ کے بیچ میں دی۔ کہا کہ آج میں تمہیں پہلی طلاق دے رہا ہوں۔اور ہمارا تمہارا فیصلہ بیٹی کی شادی کے بعد کریں گے۔
دوسری طلاق 7 یا 8 تاریخ کو میری ماں اور سمدھن کے سامنے نہ کوئی بات نہ کوئی چیت ہنسی خوشی باتیں کر رہے تھے بس کہنے لگے میری بھی بات سنئے تو سب بہت غور سے سننے لگے تو کہا زمین آسمان اور اللہ اور رسول کو اور ان دو گواہوں کے سامنے اسرار کی لڑکی اور میرا نام لیکر کہا کہ میں طلاق دے رہا ہوں۔ اس وقت ان کی طبیعت خراب تھی اور اب بھی خراب۔ ان دو طلاقوں کے بعد 8 مئی 2022 کو سب لوگوں کے سمجھانے پر میرے بھائی اور دو تین لوگوں کے سامنے میرا نکاح کرایا گیا اور اسی دن انہوں نے گالی گپاری شروع کردی۔ اس کے بعد وہ دوسرے سے کہتے ہیں میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے میں ان کو طلاق دے دوں گا اور میرے سامنے کہتے ہیں کہ میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا۔

تنقیح: 1۔دوسری طلاق کس تاریخ کو دی ؟
جواب: 9جنوری 2022

2۔ اور کیا پہلی طلاق کے بعد عدت میں رجوع کرلیا تھا۔ ؟

دوسری طلاق کے بعد عدت میں رجوع کرلیا تھا ؟
جواب:جی پہلی دفعہ میں رجوع کیا تھا پھر دوسری دفعہ میں نکاح ہوا تھا-

3۔ کیا اس شخص کی ذہنی کیفیت صحیح ہے؟
جواب: جی ذہنی کیفیت صحیح ہے –

4۔ جب ان صاحب نے تیسری مرتبہ میں یہ جملہ کہا کہ میرا
ان سے کوئی تعلق نہیں ہے میں ان کو طلاق دے دوں گا تو یہ کہتے ہوئے طلاق کی نیت تھی؟
جواب:جی طلاق کی نیت تھی اور اب کہتے ہیں کہ طلاق نہیں دوں گا-
الجواب باسم ملھم الصواب

صورت مسئولہ میں جب مذکورہ خاتون کے شوہر نے ان کو پہلی اور پھر بعد میں دوسری طلاق دی تو وہ دونوں طلاقیں واقع ہو گئیں۔ اس کے بعد ان کے شوہر کا ان سے دوبارہ نکاح کرنا بے معنی ہے کیونکہ وہ اس وقت ان کے نکاح میں ہی تھیں۔ اس کے بعد جب ان کے شوہر نے کسی دوسرے شخص سے کہا کہ میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے تواگر مذکورہ الفاظ طلاق کی نیت  سے  کہے ہیں تو اس سے ایک طلاقِ بائن واقع ہو جائے گی اور چونکہ پہلے بھی دو طلاقیں دے چکا تھا اسلئے ساتھ ہی بیوی مغلظہ بھی ہو جائے گی ۔ شرعی حلالہ کے بغیر دوبارہ نکاح بھی ممکن نہیں ہوگا۔
لیکن اگر مذکورہ الفاظ طلاق کی نیت سے نہیں کہے تھے تو تیسری طلاق واقع نہیں ہوئی۔ نکاح بدستور قائم ہے اور شوہر کے پاس ایک طلاق کا حق باقی ہے۔
البتہ طلاق کی نیت ہونے نہ ہونے میں شوہر کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:

1۔”لو قال لها لا نكاح بيني وبينك أو قال لم يبق بيني وبينك نكاح يقع الطلاق إذا نوى”.
(الهندية: الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق، 2/1 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2۔وإن اختلفا في وجود الشرط فالقول له إلا إذا برهنت.
(الفتاوى الهندية، كتاب الطلاق، الباب الثالث،490/1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3۔ففی کل موضع یصدق الزوج علی نفی النیہ انمایصدق مع الیمین.
الفتاوی التاتارخانیہ: (328/3)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

والله تعالى أعلم بالصواب
18 شوال 1440 ھ
8 مئی 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں