طلاق کےبعد بچوں سے ملنے سے روکنا

سوال:السلام علیکم ورحمتہ اللہ
میرایہ سوال ہے کہ مجھے اپنی بیٹی سے ملنا ہے۔ جب وہ ساڑھے چار سال کی تھی تب وہ مجھ سے بچھڑ گئی تھی اس کے ددھیال والوں اور میرے سابقہ شوہر نے اسے مجھ سے چھین لیا تھا۔جب بچی چھوٹی تھی توانہوں نے مجھے ملنا نہیں دیا میرے گھر والوں نے بھی مجھے یہی سمجھایا کہ بچی ابھی چھوٹی ہے اس کے ذہن پر اچھا اثر نہیں پڑے گا اس کو بڑا ہونے دو پھرمل لینا مگربچی کے باپ نے بچی کومیرے بارےمیں کچھ بتایا ہوا نہیں ۔ بچی کے باپ نے دوسری شادی کر رکھی ہے اور بچی کو یہی بتایا گیا ہے کہ وہ دوسری بیوی ہی بچی کی اصلی ماں ہے۔
میں اس سےاب ملنا چاہتی ہوں لیکن وہ لوگ ملوانے پر راضی ہی نہیں ہیں۔ شریعت میں میرے لیے کیا حکم ہے؟
تنقیح : بچی کی عمر کیا ہے؟
جواب تنقیح : بچی کی عمر اب 14 سال ہے۔
تنقیح: کیا لڑکی بالغ ہو چکی ہے؟
جواب تنقیح : جی

الجواب باسم ملہم الصواب
میاں بیوی میں طلاق کے بعدماں کو اس بات کا حق حاصل تھا کہ وہ بچی کو بلوغت تک اپنے ساتھ رکھ سکتی تھی۔ تاہم بیٹی اگر باپ کے ساتھ ہو تو ماں جب چاہے اپنی بیٹی کے  ساتھ  ملاقات کےلیےجا سکتی ہے ۔اسی طرح  اگروہ  ماں کے ساتھ  ہوتو باپ  اس کے ساتھ جب چاہے،  ملاقات  کرسکتا ہے۔دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کوملاقات  سے منع کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
لہذا آپ خاندان کے بڑوں کو بیچ میں ڈال کر مصالحت کے ساتھ آپ اپنی بیٹی سے ملنے کی راہ نکالیں۔شریعت میں آپ اپنی بچی سے ملنے کا مکمل حق رکھتی ہیں۔
نیز باپ کا بیٹی کے ساتھ اس کی ماں کے متعلق جھوٹ بولنا جائز نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات :

1۔اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّهِ ۚ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوٓا اٰبَآءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِى الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَآ اَخْطَاْتُـمْ بِهٖ وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللّهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۔
 (سورۃ الاحزاب : 5)
ترجمہ: انہیں ان کے اصلی باپوں کے نام سے پکارو اللہ کے ہاں یہی پورا انصاف ہے، سو اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں، اور تمہیں اس میں بھول چوک ہو جائے تو تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن وہ جو تم دل کے ارادہ سے کرو، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
—————-
1۔عَنْ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ ۔
(صحیح بخاری: 6766)
ترجمہ: حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے اپنی نسبت اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف کی، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے۔“

2۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تَعَلَّمُوا مِنْ أَنْسَابِكُمْ مَا تَصِلُونَ بِهِ أَرْحَامَكُمْ فَإِنَّ صِلَةَ الرَّحِمِ مَحَبَّةٌ فِي الْأَهْلِ مَثْرَاةٌ فِي الْمَالِ مَنْسَأَةٌ فِي الْأَثَرِ۔
(جامع الترمذی: 1979)
ترجمہ:ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اس قدراپنا نسب جانوجس سے تم اپنے رشتے جوڑسکو، اس لیے کہ رشتہ جوڑنے سے رشتہ داروں کی محبت بڑھتی ہے، مال ودولت میں اضافہ ہوتا ہے، اورآدمی کی عمر بڑھادی جاتی ہے۔
——————
1 ۔ ”(والحاضنة ) اما او غیرھا ( احق به)ای بالغلام حتی یستغنی عن النساء وقدر بسبع وبه یفتی،لانه الغالب ۔۔۔۔۔والام والجدة احق بالجاریة حتی تحیض ۔
(فتاوی شامیہ: جلد 3، صفحہ 566)

2 ۔ ”وبعد ما استغنی الغلام وبلغت الجاریة فالعصبة اولی یقدم الاقرب فالاقرب، کذا فی فتاوی قاضی خان“۔(فتاوی عالمگیری :جلد 1، صفحہ 542)

3 ۔”نفقة الأولاد الصغار علی الأب لايشاركه فيها أحد،كذا في الجوهرة النيرة“۔
(فتاوی عالمگیری :جلد1،صفحہ560)

4 ۔ ” احق الناس بحضانة الصغیر حال قیام النکاح او بعد الفرقة الأم الا ان تکون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة۔۔۔۔الخ، کذا فی الکافی“
(فتاوی عالمگیری: جلد 1،صفحہ 315)

5۔إذا مَنَع الرجل أم المرأة أو أباها أو «أحداً من أهلها من الدخول عليها في منزله فله ذلك، ولكن لا يمنعهم من النظر إليها وتعاهدها والتكلم معها، فيقوموا على باب الدار والمرأة داخل الدار. هذا في حق (أهلها) وكل ذي رحم محرم ومن لا يتهمه الزوج، أما إذا لم يكن محرماً ويتهمه الزوج كان له أن يمنعه من النظر إليها، وكذلك إن كان لها ولد من غيره ليس له أن يمنع بعضهم من أن ينظر إلى البعض، فروي عن أبي يوسف رحمه الله أن الزوج لا يملك أن يمنع الأبوين عن الدخول عليها للزيارة في كل شهر مرتين وأما يمنعهما من الكينونة.
وفي «فتاوى أبي الليث» رحمه الله عن الفقيه أبي بكر الإسكاف رحمه الله أن الزوج لا يملك أن يمنع الأبوين عن الدخول عليها عن الزيارة في كل جمعة وأما يمنعهما عن الكينونى وعليه الفتوى. وأما غير الأبوين من المحارم، فقد ذكر الخصاف أيضاً في هذين الموضعين أنه يمنعهم عن الزيارة في كل سنة وعليه الفتوى. وأما إذا أرادت المرأة أن تخرج إلى زيارة المحارم نحو الخالة أو العمة أو إلى زيارة الأبوين فهو على هذا يعني لا يمنعها عن زيارة الأبوين في كل جمعة وعن زيارة سائر المحارم في كل سنة.
(المحیط البرھانی: جلد 3، صفحہ 170)

6۔”اذا سقطت حضانة الام واخذہ الاب لایجبر علی ان یرسل لھا بل هی اذ ارادت ان تراہ لاتمنع من ذالک“۔
(فتاوی شامیہ : جلد 5، صفحہ 275)

7۔ان کانت ثیبا وغیر مامونۃعلی نفسھا لا یخلی سبیلھا ویضمھا الی نفسہ وان کانت مامونۃ علی نفسھا فلا حق لہ فیھا ویخلی سبیلھا وتنزل حیث احبت کذا فی البدائع۔
وان کانت بالغۃ بکرا فللا ولیا ء حق الضم وان کان لا یخاف علیھا الفساد اذا کانت حدیثۃ السن واما اذا دخلت فی السن واجتمع لھا رایھاوعقتھا فلیس للاولیاء الضم ولھا ان تنزل حیث احبت لا یتخوف علیھا کذا فی المحیط۔
(فتاوی عالمگیری : جلد 1،صفحہ 566)

8۔ان کانت ثیبا وھی غیرمامونۃ علی نفسھا لا یخلی سبیلھا ویضمھا الی نفسہ، وان کانت مامونۃ علی نفسھا،فلا حق لھا فیھا، ویخلی سبیلھا وتترک حیث احبت، وان کانت بکرا لا یخلی سبیلھا ، وان کانت مامونۃ علی نفسھا، لانھا مطمع لکل طامع۔
(بدائع الصنائع: جلد 5، صفحہ 214)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔حکم شرعی دربارہ حق پرورش یہ ہے کہ لڑکی ماں کے پاس بالغہ ہونے تک اور حائضہ ہونے تک رہ سکتی ہے ۔
(فتاوی دارالعلوم دیوبند: جلد 11، صفحہ 56)
————————
واللہ اعلم بالصواب
30نومبر2022
5جمادی الاول1444

اپنا تبصرہ بھیجیں