وصیت نامہ لکھنے کا مسنون طریقہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وصیت لکھنے کا وہ طریقہ جو سنت سے ثابت ہو وہ بتا دیجیے ۔
الجواب باسم ملھم الصواب
وصیت کی دو اقسام ہیں :
واجب وصیت :اس وصیت میں نماز،روزہ،زکوۃ،حج،قربانی،سجدۂ تلاوت،صدقۂ فطر،قَسم کے کفارے،قرض اور امانتیں(جو خود اور دوسروں پر ہیں)،منت کے متعلق،کمپنی یا حکومت کے قرض وغیرہ کی تمام تفصیلا ت جو ابھی تک ادا نہیں ہوئی ہیں، ان کا اندراج ضروری ہے۔ اس کے علاوہ جتنے اثاثہ جات ہیں ان کے متعلق بھی تمام ضروری تفاصیل لکھ دی جائیں اور روزانہ جو بھی صورتحال ہو اس کے مطابق ،ان میں ترمیم اور اضافہ کرتے جائیں ۔
مثلا ً:آج تک جتنی نمازیں ،روزے وغیرہ ذمہ میں ہیں ،ان کو لکھ لیا جائے پھر جتنا ادا کرلیں ان کو منہا کردیں۔
مستحب وصیت :اپنے مال میں سے ایک تہائی مال کی وصیت کرنا مستحب ہے ،مثلاً:کہیں مدرسہ ،مسجد یا دینی کام میں وقف کی وصیت کردیں یا وہ شخص جو رشتے داروں میں وارث نہیں ہے اس کے لیے بھی ایک تہائی مال میں سے وصیت کرجانا جائز ہے ۔
باقی ورثاء کے حق میں وصیت نہیں کی جاتی کیونکہ انتقال کے بعد شرعی حصص کے مطابق وارثوں میں مال خود تقسیم ہوجاتا ہے ،نیز اگر کسی وارث کے لیے وصیت کردی تو نافذ نہیں ہوگی ، تاہم اگر باقی بالغ وارثین کی جانب سے اجازت ہو تو کسی خاص وارث کے حق میں ضروری وصیت کی جاسکتی ہے ۔ وارث کو وراثت سے محروم کرنے کی وصیت نہ نافذ ہوگی نہ کرنا جائز ہوگا۔ اسی طرح ناجائز کاموں کی وصیت کرنا جائز نہیں ۔
اسی طرح اگر یہ احتمال ہوکہ مرنے کے بعد بدعتی رسوم رواج کے مطابق کفن و دفن اور تعزیت وصول کرنے کا اہتمام ہوگا تو اس کی بھی ممانعت کرنےکی وصیت کرنا ضروری ہے ۔
مکمل تفصیلات کے لیے کتاب”احکام میت”( باب ہفتم،ص156-160)“مصنف ”ڈاکٹر عبد الحی عارفیؒ “کا مطالعہ کرلیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔مِنْ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصٰى بِھا اَوْ دَیْنٍ-غَیْرَ مُضَآرٍّ-وَصِیَّةً مِّنَ اللّٰہ۔(النساء :12)
ترجمہ: (یہ دونوں صورتیں بھی) میت کی اس وصیت اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد ہوں گی جس (وصیت) میں اس نے (ورثاء کو) نقصان نہ پہنچایا ہو ۔
2۔مَنْ قَطَعَ مِیْرَاثاً فَرَضَہ اللّٰہُ قَطَعَ اللّٰہُ مِیْرَاثَہ مِنَ الْجَنَّةِ (ابن ماجہ :رقم،25)
ترجمہ:”جس شخص نے وارث کو میراث سے محروم کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو جنت سے محروم رکھے گا (کچھ عرصہ کے لیے“
3۔إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْخَيْرِ سَبْعِينَ سَنَةً ، فَإِذَا أَوْصَى حَافَ فِي وَصِيَّتِهِ فَيُخْتَمُ لَهُ بِشَرِّ عَمَلِهِ فَيَدْخُلُ النَّارَ ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الشَّرِّ سَبْعِينَ سَنَةً فَيَعْدِلُ فِي وَصِيَّتِهِ فَيُخْتَمُ لَهُ بِخَيْرِ عَمَلِهِ فَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ۔[سنن ابن ماجه » كِتَاب الْوَصَايَا » بَاب الْحَيْفِ فِي الْوَصِيَّةِ ۔۔۔رقم الحديث: 2696]
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی ستر سال تک نیک عمل کرتا رہتا ہے، پھر وصیت کے وقت اپنی وصیت میں ظلم کرتا ہے، تو اس کا خاتمہ برے عمل پر ہوتا ہے اور جہنم میں جاتا ہے، اسی طرح آدمی ستر سال تک برے اعمال کا ارتکاب کرتا رہتا ہے لیکن اپنی وصیت میں انصاف کرتا ہے، اس کا خاتمہ بالخیر ہوتا ہے، اور جنت میں جاتا ہے
4۔إنَّ اللَّهَ قد أعطى كلَّ ذي حقٍّ حقَّهُ ألا لا وصيَّةَ لوارِثٍ(صحيح ابن ماجه:2211)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے، لہٰذا وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔
5۔”ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين۔ ولاتجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية۔۔۔ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة۔“
(الفتاویٰ الھندیہ: کتاب الوصایا 6/ 90 ،دار الفکر)
6۔إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة فأوصى بأن تعطى كفارة صلواته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع ولصوم يوم نصف صاع … وإن لم يوص لورثته وتبرع بعض الورثة يجوز ويدفع عن كل صلاة۔ (الفتاوى الهندية، كتاب الصلوة، الباب الرابع عشر في صلوة المريض: / 183)
7۔من عليه الحج إذا مات قبل أدائه فإن مات عن غير وصية يأثم بلا خلاف۔۔۔ وإن مات عن وصية لا يسقط الحج عنه ۔۔۔ ويحج عنه من ثلث ماله سواء قيد الوصية بالثلث بأن أوصى أن يحج عنه بثلث ماله أو أطلق بأن أوصى بأن يحج عنه هكذا في البدائع(الھندیة: 1/258، ط: دار الفکر)
و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:19/جمادی الثانی /1444ھ
شمسی تاریخ:12/جنوری/2023

اپنا تبصرہ بھیجیں