نظر بد سے بچانے کے لیے کالا دھاگہ باندھنا

سوال: نظر بد سے بچانے کے لیے بچوں کو کالا دھاگہ باندھ سکتے ہیں؟
الجواب باسم ملھم الصواب
جن جگہوں پر کالے دھاگے کو بذات خود موثر سمجھا جاتا ہے وہاں پر نظر بد کی حفاظت کے لیے اس عقیدے کے ساتھ کالا دھاگہ باندھنا جائز نہیں اس سے بچنا لازم ہے۔ البتہ اس کے بجائے مسنون اعمال اور دعاؤوں کا اہتمام کرنا چاہیے:
1۔اللّٰهُمَّ رَبَّ النَّاسِ مُذْهِبَ الْبَاس اِشْفِ أنْتَ الشَّافِيْ لَا شَافِيَ اِلَّا اَنْتَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقْمًا.
2. أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ۔
3.أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اشْتَكَى يَقْرَأُ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ۔
یہ دعائیں سنت سے ثابت ہونے کی وجہ سےزیادہ موثر ہیں لہذا انہی پر عمل کیاجائے۔ البتہ اگر کوئی چھوٹا بچہ ہے اور وہ ان دعاؤوں کو نہیں پڑھ سکتاتو یہ دعائیں کسی تعویذ وغیرہ پر پڑھ کر اس کےگلے میں ڈال دی جائیں تو شرعا اس کی بھی گنجائش ہےتاہم اسے خود موثر حقیقی نہ سمجھا جائے اور نہ کالے رنگ کے دھاگے کی پابندی کی جائے۔
——————————————-
حوالہ جات :
1.اللّٰهُمَّ رَبَّ النَّاسِ مُذْهِبَ الْبَاس اِشْفِ أنْتَ الشَّافِيْ لَا شَافِيَ اِلَّا اَنْتَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقْمًا. (صحیح بخاری: 2167)
’’ترجمہ: اے اللہ لوگوں کے پروردگار تکلیف دُور فرمانے والے شفاء عطا فرما، تُو ہی شفاء دینے والا ہے تیرے سوا کوئی شفاء دینے والا نہیں، ایسی شفاء جو کوئی بیماری نہ چھوڑے۔ ‘‘
2. عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اشْتَكَى يَقْرَأُ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ وَيَنْفُثُ فَلَمَّا اشْتَدَّ وَجَعُهُ كُنْتُ أَقْرَأُ عَلَيْهِ وَأَمْسَحُ بِيَدِهِ رَجَاءَ بَرَكَتِهَا… (صحیح بخاری: 5016)
ترجمہ : سیدنا عائشہ‬ ؓ ‬ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوئے تو معوذات کی سورتیں پڑھ کر اپنے آپ پر دم کرتے پھر جب آپ کی تکلیف زیادہ ہوگئی تو میں ان سورتوں کو پڑھ کر آپ کے ہاتھوں کو برکت کی امید سے آپ کے جسد اطہر پر پھیرتی ۔
3. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعَلِّمُهُمْ مِنْ الْفَزَعِ كَلِمَاتٍ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يُعَلِّمُهُنَّ مَنْ عَقَلَ مِنْ بَنِيهِ وَمَنْ لَمْ يَعْقِلْ كَتَبَهُ فَأَعْلَقَهُ عَلَيْهِ. (سنن ابو داؤد: 3893)
ترجمہ: عمرو بن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ڈر یا گھبراہٹ کے موقع پر انہیں یہ کلمات سکھایا کرتے تھے: «أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ» ”میں اللہ کے کامل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں۔ اس کی ناراضی سے، اس کے بندوں کی شرارتوں سے، شیطانوں کے وسوسوں سے اور اس بات سے کہ وہ میرے پاس آئیں۔“ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ اپنے سمجھدار بچوں کو یہ کلمات سکھا دیا کرتے تھے اور جو ناسمجھ ہوتے، انہیں لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیتے۔
4. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُ الدَّوَاءِ الْقُرْآنُ» (سنن ابن ماجہ:3501)
حضرت علی ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بہترین دوا قرآن ہے”۔
———————————————-
1.”وقد أجمع العلماء ‌على ‌جواز ‌الرقى عند اجتماع ثلاثة شروط أن يكون بكلام الله تعالى أو بأسمائه وصفاته وباللسان العربي أو بما يعرف معناه من غيره وأن يعتقد أن الرقية لا تؤثر بذاتها بل بذات الله تعالى”۔ (فتح الباری لابن حجر: جلد 10، صفحہ 195)
2.”وأما ما كان ‌من ‌الآيات القرآنية، والأسماء والصفات الربانية، والدعوات المأثورة النبوية، فلا بأس، بل يستحب سواء كان تعويذا أو رقية أو نشرة، وأما على لغة العبرانية ونحوها، فيمتنع لاحتمال الشرك فيها” (مرقاۃ المفاتیح: جلد7، صفحہ 2880)
3.(قوله التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن…ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى…قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به اه. (الفتاوی شامیہ: جلد 6،صفحہ 363)
4.وفی الہندیۃ: واختلف فی الإسترقاء بالقرآن نحو أن یقرأ علی المریض والملدوغ أو یکتب فی ورق ویعلق أو یکتب فی طست فیغسل ویسقی المریض فاباحہ عطاء و مجاہد وابوقلابہ۔ الخ
وفیہ ایضًا: ولا بأس بتعلیق التعویذ ولکن ینزعہ عند الخلاء والقربان کذا فی الغرائب۔ اھ. (فتاوی ھندیہ: جلد 5، صفحہ 356)
5.آیات قرآنی پڑھ کر دعا کرنا یا دوسرے سے کروانا درست ہے۔ (فتاوی محمودیہ: جلد 20، صفحہ 48)
6.حقیقی نفع و ضرر تو اللہ تعالی کے قبضہ و قدرت میں ہے مگر جس طرح غذا ودوا میں اللہ تعالی نے اثر رکھا ہے اسی طرح تعویزات میں بھی اثر رکھا ہےلیکن کسی چیز کو خداوند کی طرح نفع وضرر کا مالک تصور کر لینا جائز نہیں۔فقط دعا پر اعتماد کرلینا اعلی مقام ہے جس کو نصیب ہوجائے۔ (فتاوی محمودیہ: جلد 20، صفحہ 63)
واللہ اعلم بالصواب
25جنوری 2023
3رجب 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں