ایسے ریسٹورنٹ میں کام کرنا جہاں شراب بھی بکتی ہو

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!
سوال : مفتی صاحب! ایک بچہ جو کہ امریکہ میں رہتا ہے اس کا سوال ہے کہ اگر وہ کسی ایسے ریسٹورنٹ میں نوکری کرے کہ جہاں شراب بھی بکتی ہو مگر وہ صرف باقی کھانا تو سرو کرے مگر شراب نہیں تو ایسی صورت میں کیا حکم ہوگا؟
رہنمائی مطلوب ہے۔
جزاکم اللہ خیرا کثیرا کثیرا فی الدارین !
الجواب باسم ملھم الصواب
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاتہ!
مذکورہ ریسٹورنٹ کے ایسے شعبہ میں ملازمت کرنا جس میں حرام کام میں شمولیت نہ ہوتی ہو ( جیسے شراب بنانا، بیچنا یا اسے اٹھا کر منتقل کرنا ) تو پھر اس میں ملازمت کرنے کی شرعاً گنجائش ہے ہے،تاہم پھر بھی بہتر یہ ہے کہ کسی ایسی جگہ بھی کام تلاش کیا جائے جہاں حرام اشیا نہ بکتی ہوں-
حوالہ جات :
1: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۰
( سورۃ المائدۃ : 90 )
ترجمہ: اے ایمان والو ! شراب اور جوا اور بتوں کے تھان اور فال کے تیر یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں لہذا ان سے بچو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو ۔
2 عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَمْرِ عَشْرَةً عَاصِرَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمُعْتَصِرَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَشَارِبَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَحَامِلَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَحْمُولَةُ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَسَاقِيَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَبَائِعَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَآكِلَ ثَمَنِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُشْتَرِي لَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُشْتَرَاةُ لَهُ ۰
( ترمذی شریف: 1295 )
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کی وجہ سے ”دس آدمیوں پر لعنت بھیجی: اس کے نچوڑوانے والے پر، اس کے پینے والے پر، اس کے لے جانے والے پر، اس کے منگوانے والے پر اور جس کے لیے لے جائی جایے اس پر، اس کے پلانے والے پر اور اس کے بیچنے والے پر، اس کی قیمت کھانے والے پر، اس کو خریدنے والے پر اور جس کے لیے خریدی گئی ہو اس پر“۔
3 : أكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط۰
( فتاویٰ ہندیہ : کتاب الكراهية باب الهداية والضيافات 5/ 422 )
4 : ایک مسلمان کے لیے غیر مسلم کے ہوٹل میں ملازمت کرنا جائز ہے، بشرطیکہ وہ مسلمان شراب پلانے یا خنزیر یا دوسرے محرمات کو غیر مسلموں کے سامنے پیش کرنے کا عمل نہ کرے اس لیے کہ شراب پلانا یا اس کو دوسروں کے سامنے پیش کرنا حرام ہے ۰۰۰۰۰۰ اور حضرت عبد اللہ بن عباس کے فتویٰ سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اگر کسی علاقے میں شراب بنانے اور اس کی خرید وفروخت کا عام رواج ہو، وہاں بھی کسی مسلمان کے لیے حصولِ معاش کے طور پر شراب کا پیشہ اختیار کرنا حلال نہیں-
( فقہی مقالات : 1/252،250 )
والله اعلم بالصواب
23 محر الحرام 1444
21 اگست 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں