فوت شدہ بیٹے کے بچوں کا جائیداد میں کوئی حصہ ہے؟

سوال : یہ پوچھنا تھا کہ ایک والد حیات ہیں اور ساری جائیداد ان کے نام ہے وہ اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا چاہتے ہیں ،ان کا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں، ایک بیٹا فوت ہوچکا جس کی بیوہ اور بچے ہیں ،سوال پہ ہے کہ اس بیوہ اور بچوں کا جائیداد میں کتنا حصہ بنتا ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب
بیٹے کا انتقال چونکہ باپ کی زندگی میں ہوا ہے اس لیے شرعی اعتبار سے بیوہ اور اس کے بچوں کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں،
البتہ زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جاتی ہے اس کی حیثیت چونکہ وراثت کی نہیں بلکہ ہبہ کی ہوتی ہے، اس لیے اگر ان کو بھی کچھ حصہ دے دیا جائے تو یہ باعث اجر وثواب ہوگا۔
==================
حوالہ جات :
1 ۔ ”آباء کم وأبناء کم لاتدرون أیہم أقرب لکم نفعاً،فریضة من اللہ ان اللہ کان علیما حکیما“ ( النساء : 11 ) ۔
ترجمہ : ”تمہارے باپ دادا اور بیٹے تم نہیں جانتے کہ نفع رسانی کے لحاظ سے کون سا رشتہ تم سے زیادہ قریب ہے (اللہ تعالی کی حکمتِ بالغہ ہی اس کا فیصلہ کرسکتی ہے)اللہ تعالی نے یہ حصے ٹھہرادیے ہیں اور وہ (اپنے بندوں کی مصلحت کا) جاننے والا ہے(اپنے تمام احکام میں) حکمت والا ہے “ ۔

2 ۔”وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» ۔ وفي رواية …… قال: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم“ ۔ (مشکاة المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ: ”حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ۔۔۔۔  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو“ ۔

3 ۔ ”(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها“ ۔( الدرالمختار (وحاشیہ ابن عابدین: 690/5) ۔

4 ۔ ”وقد ذکر الإمام أبوبکر جصاص الرازي رحمہ اللّٰہ في أحکام القرآن، والعلامة العیني في عمدة القاري: الإجماع علی أن الحفید لا یرث مع الابن“۔
(تکملة فتح الملہم : 18/2)۔

واللہ اعلم بالصواب۔
11 ربیع الاول 1444
8 اکتوبر 2022۔

اپنا تبصرہ بھیجیں