غیر مسلم ممالک میں کھانا کھانا

السلام علیکم ورحمتہ اللہ
باجی ہم ہندوستان سے ہیں تو یہاں اکثر ان چیزوں پر توجہ نہیں کرتے جیسے مان لیں کہ کھانے کی کوئی چیز ہو چپس بسکٹ وغیرہ اور اس میں خنزیر کا گوشت یا گائے کا پیشاب ہو اور ہم کو پتا نا چلے تو کیا کریں؟ اب ہر چیز کو خوب تفصیل سے پتا کرنا ممکن نہیں ہوتا کبھی کبھی تو ان حالات میں کیا کر سکتے ہیں؟؟ نیٹ پر بہت سی چیز کا بتاتے ہیں کہ اس میں یہ وہ ملا ہے کیا اس پر یقین کیا جائے ؟

الجواب باسم ملہم الصواب

جس کھانے کے بارے میں آپ کو یقین ہو کہ اس میں کوئی حرام چیز کی آمیزش ہے اس سے بچناتو آپ پر لازم ہے تاہم جس کے بارے میں یقین نہیں صرف سنی سنائی باتیں ہیں ان پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی محض شک کی صورت میں کسی چیز سے بچنا آپ کے لیے لازم ہوگا آپ اسے استعمال کر سکتے ہیں۔زیادہ شک میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ ” یایُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۔
(المائدة : 90)
ترجمہ : ”اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ“۔
—————————————
1۔” عن النعمان بن بشير -رضي الله عنه- قال: سمعت النبي -صلى الله عليه وسلم- يقول: «إن الحلال بيِّن وإن الحرام بين، وبينهما امور مُشْتَبِهَاتٌ لا يعلمهن كثير من الناس، فمن اتقى الشُّبُهات فقد اسْتَبْرَأ لدينه وعرضه، ومن وقع في الشبهات وقع في الحرام۔۔الخ۔
(صحیح البخاری:52)
ترجمہ: نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ، اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں، جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے (کہ حلال ہیں یا حرام) پھر جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو ان میں پڑ گیا وہ حرام میں پڑ گیا۔

2.قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” الْحَلَالُ بَيِّنٌ، وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ، فَمَنْ تَرَكَ مَا شُبِّهَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ كَانَ لِمَا اسْتَبَانَ أَتْرَكَ، وَمَنِ اجْتَرَأَ عَلَى مَا يَشُكُّ فِيهِ مِنَ الْإِثْمِ أَوْشَكَ أَنْ يُوَاقِعَ مَا اسْتَبَانَ، وَالْمَعَاصِي حِمَى اللَّهِ، مَنْ يَرْتَعْ حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكْ أَنْ يُوَاقِعَهُ “۔
(صحیح البخاری : 2051)
ترجمہ:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ جس شخص نے اس چیز کو ترک کردیا جس میں گناہ کا شبہ ہوتو وہ اس چیز کو بدرجہ اولی چھوڑ دے گا جس کا گناہ ہونا ظاہر ہو اور جس نے شبہ کی چیز پر جرات کی تو وہ جلد ہی ایسی بات میں مبتلا ہوسکتا ہے جس کاگناہ ہونا ظاہر ہے۔ گناہ (گویا) اللہ کی چراگاہ ہیں، جوانسان اپنے جانور چراگاہ کے اردگرد چرائے گا جلد ہی اس کا چراگاہ میں پہنچنا ممکن ہوگا۔
———————-
1۔” رجل اشترى من التاجر شيئاً هل يلزمه السؤال أنه حلال أم حرام؟ قالوا: ينظر إن كان في بلد وزمان كان الغالب فيه هو الحلال في أسواقهم ليس على المشتري أن يسأل أنه حلال أم حرام، ويبنى الحكم على الظاهر، وإن كان الغالب هو الحرام أو كان البائع رجلاً يبيع الحلال والحرام يحتاط ويسأل أنه حلال أم حرام“۔
(الفتاوی ھندیہ: جلد 3، صفحہ 210)
—————————-
عوام میں مشہور ہے کہ ڈالڈاگھی میں سور کی چربی ملائی جاتی ہے ؟ کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب : جب تک نجس شے ملائے جانے کا شرعی ثبوت نہ ہو تب تک اس کے استعمال کو حرام قرار دینا صحیح نہیں “۔
(فتاوی رحیمیہ: جلد 10، صفحہ 140)
——————————-
واللہ اعلم بالصواب
30جنوری2023
8رجب1444

اپنا تبصرہ بھیجیں