حضرت زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ

نام نسب:

نام “زید’ ابواسامہ کنیت  حب رسول اللہ ﷺلقب ،والد کانام حارثہ اوروالدہ کانام سعدی بنت ثعلبہ تھا،سلسلہ نسب یوں ہے زیدبن حارثہ ،بن شرجیل بن کعب  ابن عبدالعزیٰ بن امراء القیس بن عامر بن نعمان بن عامربن عبدودبن عوف بن کنانہ بن بکربن عوف بن عذرہ بن زیدالاث بن رفیدہ بن ثوربن کلب  بن دبرہ بن ثعلب بن حلوان بن عمران بن الحاف بن قضاعہ ۔

ابتدائی حالات :

حضرت زید رضی اللہ عنہ کےوالدحارثہ بن قضاعہ سے تعلق رکھتےتھے جویمن کاایک نہایت معززقبیلہ تھا،ان کی والدہ بنی معن  سےتھیں جوقبیلہ طےکی ایک شاختھی،ایک مرتبہ والدہ صغیرالسن بچےحضرت زیدرضی اللہ عنہ کوساتھ لےکرمیکہ گئیں ،اسی اثناءمیں بنوقین کےکچھ لوگوں نےحضرت زیدرضی اللہ عنہ کوخیمےکےباہرسےاٹھالیااورعکاظ کےبازارمیں فروخت کردیا،حکیم بن حزام نےآپ رضی اللہ عنہ کوچارسودرہم میں خریدکر اپنی  پھوپھی ام المومنین حضرت خدیجہ بن خویلد رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا،جن کی وساطت سےآپ رضی اللہ عنہ کوسروردوعالم رضی اللہ عنہ کی غلامی کاشرف نصیب ہوا۔

 (طبقات ابن سعد جلدثانی  قسم اول صفحہ 27)

حضرت زیدرضی اللہ عنہ کےوالدین کواپنےلخت جگرکےگم ہونے کاشدیدغم ہوا،محبت پدری نے اس رنج والم کا اس طرح نقشہ کھینچا۔

“آفتاب  اپنےطلوع ہونےکےوقت اس کویاددلاتاہے اورجب غروب کاوقت قریب آجاتاہے تواس کی یاد کوپھرتازہ کردیتاہے “۔

ایک سال بنی کلب کےچندآدمی حج کےخیال سے مکہ آئے ،انہوں نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کوپہچان لیااورآپ رضی اللہ عنہ کےوالدین کاماجرائے ٖغم کہہ سنایا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نےفرمایا: یقیناًوہ میرے غم میں اداس ہوں گے مگرالحمدللہ میں ایک معززاوراچھے خاندان میں رہتاہوں ۔

والدکوجب پتاچلا انہیں یقین نہ آیااوراسی وقت اپنےبھائی  کعب بن شرجیل کوہمراہ لےکر مکہ کی طرف چل پڑے اورحضرت سرور کائنات  ﷺکی خدمت میں حاضر ہوکرحضرت زید رضی اللہ عنہ کوبطورمعاوضہ آزادکرنےکی عرض پیش کی ۔مگر حضرت زیدرضی اللہ عنہ نے شہنشاہ کونین کی غلامی کوپسندفرمایا اورکہا: مجھے اس ذات پاک میں ایسے محاسن نظرآتےہیں کہ میں اس پرکسی کوترجیح نہیں دےسکتا۔

حضرت زید رضی اللہ عنہ کی اس وفاشعاری نےسرورکونین ﷺ کی دبی ہوئی محبت کومشتعل کردیا۔آنحضرت ﷺ نےخانہ کعبہ میں مقام حجرکے پاس جاکر اعلان فرمایا : زید آج سےمیرافرزندہے ۔

اسی اعلان کےبعد حضرت زیدرضی اللہ عنہ ، زیدبن محمد کےنام سےخاص ہوگئے ،یہاں تک کہ جب قرآن پاک نے اپنےنسبتی اٰباء کے ساتھ نام رکھنےکی ہدایت فرمائی توپھرزیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ مشہورہوئے ۔

ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚوَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٥﴾( سورۃ الاحزاب )

محقیقین کافیصلہ ہے کہ غلاموں میں حضرت زیدرضی اللہ عنہ سب سے پہلےمومن تھے ۔حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جب ایمان لائےتورسول اللہ ﷺنے ان سےبھائی چارہ کرادیا،ان دونوں میں اتنی محبت ہوگئی تھی کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ غزوات میں جاتے توان ہی کواپنا  بناکرجاتے ۔

 (طبقات  ابن سعد قسم اول جزء ثالث تذکرہ حمزہ )

شادی :حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جوان ہوئے تورسول اللہ ﷺ نے ان کےنکاح کےلیے اپنی پھوپھیزادبہن حضرت زینب رضی اللہ عنہ بنت جحش کاانتخاب فرماکرنکاح کاپیغام بھیجا۔حضرت زیدرضی اللہ عنہ پرچونکہ غلامی کاعیب لگاہواتھا،اس بناء پر حضرت زینب رضی اللہ عنہ اوران کےبھائی عبداللہ بن جحش نے ا س رشتے سےانکارکردیا۔

ا س واقعہ پرسورۃ الاحزاب  کی آیت وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ﴿٣٦

نازل ہوئی ۔

اس آیت میں خاص ہدایت ہے کہ جب اللہ اوررسول ﷺ کسی کام کوکرنےکاحکم دےدیں توشرعاًوہ کام کرنا واجب ہوجاتاہے چاہے نفس راضی نہ ہو جوایسانہ کرے آخر آیت میں ا س کوکھلی گمراہی فرمایاگیا۔

اس آیت کےنازل ہوتے ہی حضرت زینب رضی اللہ عنہ اوران کےبھائی نکاح کےلیے راضی ہوگئے ۔چنانچہ یہ نکاح کردیاگیا۔

مسئلہ کفاءت : ( باہمی مماثلت )

نکاح کےمعاملہ میں اگرزوجین  کےدرمیان باہمی مماثلت نہ ہوتوایک دوسرے کےحقوق اداکرنے میں فرق آتاہے ۔شریعت نےباہمی مماثلت کی رعایت کاحکم دیاہے ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اورحضرت انس رضی اللہ عنہ نے بھی اسی کی تاکیدفرمائی کہ یہ نکاح میں کفاء ت کی رعایت کی جائے ،صحابہ کرام کے واقعات سے یہ ثابت  ہے لیکن اگرکوئی دینی مصلحت پیش نظرہوتواپنایہ حق چھوڑ کرغیرمماثلت  میں نکاح کرناافضل  وبہتر ہے ۔

حضرت زینب رضی اللہ عنہا کانکاح حضرت زیدبن حارثہکے ساتھ :

حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کانکاح حضرت زیدرضی اللہ عنہ کےساتھ ،حضرت محمدﷺکےحکم کےمطابق کردیاگیا،مگردونوں کی طبیعتوں اورنسبی فرق کی وجہ سے موافقت  نہ ہوئی ،حضرت زید رضی اللہ عنہ  نے آنحضرت ﷺکے سامنے طلا ق کا اردہ ظاہرکیا۔مگرآپ ﷺ نے انہیں روکا،اگرچہ آپ ﷺ کومنجانب اللہ یہ علم ہوگیاتھاکہ ایساہوگااورحضرت زینب رضی اللہ عنہ آپ ﷺکےنکاح میں آئیں گی ۔

مگراس مسئلےسےجوچندباتوں کی وضاحت  کرناامت کومقصودتھاوہ یہ ہیں :

1۔ یہ بتاناکہ طلاق دینااگرچہ شریعت میں جائز ہےمگر پسندیدہ نہیں یعنی جائزچیزوں میں سب سے زیادہ مکروہ ہے ۔

2۔ عرب میں جاہلانہ دستورتھاکہ منہ بولےبیٹے کوحقیقی بیٹاسمجھتےتھے،اس دستورکوختم کرنےکےلیے اللہ تبار ک وتعالیٰ نےحضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہ کانکاح آنحضرت ﷺ سےکرنےکاحکم دیا۔منافقین نے اس واقعہ پربہت ناگواری کااظہار کیااورکہاکہ اپنےبیٹے کی بیوی سےنکاح کرلیا۔قرآن پاک نے یوں ردفرمایا:

 مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٤٠

(سورۃ الاحزاب)

منہ بولے بیٹے کی بیوی سےنکاح :

قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّـهِ مَفْعُولًا ﴿٣٧﴾ سورۃا لاحزاب)

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اصلاح فرمائی کہ ہم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سےآپ ﷺ کانکاح اس لیے کیا تاکہ مسلمانوں پراس معاملے میں کوئی عملی تنگی پیش نہ آئے ،کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سےنکاح کرسکیں ۔

حضرت زیدرضی اللہ عنہ کےکارنامے :

پورےقرآن پاک میں حضرت زید رضی اللہ عنہ واحد صحابی ہیں جن کانام سورۃ الاحزاب تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّـهِ مَفْعُولًا  میں آیاہے ۔

حضرت زید رضی اللہ عنہ تیراندازی میں مخصوص کمال رکھتےتھے،ان کاشمار ایسے صحابہ میں ہوتاتھا جواس فن میں اپنی نظیر آپ تھے ،معرکہ بدرسے غزوہ موتہ تک آپ رضی اللہ عنہ شجاعت وپامردی کےساتھ شریک ہوئے ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں :

“جس فوج میں حضرت زید رضی اللہ عنہ شریک ہوتے،اس میں امارت کاعہدہ ان ہی کوعطاہوتاتھا۔

ْ(طبقات ابن سعد  قسم اول جزء ثالث  صفحہ 31 ) نومرتبہ سپہ سالار بناکر بھیجےگئے ۔

حضرت زید رضی اللہ عنہ کی شہادت :

موتہ دمشق کےقریب ایک مقام کانامتھادربار رسالت کے ایک قاصد،حضرت حارث بن عمیر ازدی رضی اللہ عنہ کوشہید کیاگیا۔آنحضرت ﷺنےان کےانتقام کےلیے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی قیادت  میں تین ہزار مجاہدین بھیجے ۔دشمنوں کی تعداد ایک لاکھ کےقریب تھی ،حضرت زید رضی اللہ عنہ نےکثرت کی پرواہ نہ کی اورصفوں میں گھس گئے ،گھمسان کی جنگ ہوئی ،اسی اثناء میں نیزہ کے ایک وارنے اسلامی سالار فوج حضرت زید رضی اللہ عنہ کوشہید کردیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کےبعد حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ پھرحضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ پھران کےبعدحضرت خالد سیف اللہ نےعلم سنبھالتےہوئے لڑے اورغنیم کےپاؤں اکھاڑدیے ۔ (بخاری باب  غزوہ موتہ)

حضرت زید رضی اللہ عنہ کےاخلاق :

حضرت زید رضی اللہ عنہ کے صحیفہ اخلاق میں وفاشعاری کاباب سب سےنمایاں ہے،آقائے ماندار کی رضامندی ان کامقصدحیات تھا،ان کے اوصا ف حسنہ کی بدولت حضرت رسالت مآب رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں سب سےزیادہ محبوب بنادیاتھا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں : “اگر وہ آنحضرت ﷺ کےبعدزندہ رہتے توآپ رضی اللہ عنہ ان کواپناجانشین بناتے”

(طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث :31)

حلیہ اورعمر :

حضرت زید رضی اللہ عنہ کاحلیہ یہ تھا قد کوتاہ ،ناک پست اوررنگ گہرا گندمی 54 یا55 برس کی عمرمیں شہادت پائی ۔ (اصابہ تذکرہ زیدبن حارثہ)

ازواج :مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں

نام یہ ہیں :

ام ایمن ،ام کلثوم بنت عقبہ ،درہ بنت لہب ،ہندبنت العوام ،زینب بنت جحش، (اسدالغابہ تذکرہ زیدبن حارثہ )

اولاد:

دولڑکے :اسامہ بن زید ،زیدبن زیداورایک لڑکی رقیہ ۔حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کےسوا دونوں بچے بچپن ہی میں وفات پاگئے ۔

(طبقات ابن سعد قسم اول جز ،ثالث :30)

اپنا تبصرہ بھیجیں