حکومت کی طرف سے بینک اکاونٹ سے زکوٰۃ کاٹنے سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے یا نہیں

فتویٰ نمبر:708

حکومت کی طرف سے بینک اکاونٹ سے زکوٰۃ کاٹنے سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے؟

 جواب :ہمارے ملک میں سرکاری سطح پر زکوٰۃ وصول کرنے کا نظام قائم ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سے مالیاتی اداروں سے زکوٰۃ وصول کی جاتی ہے، کمپنیاں بھی زکوٰۃ کاٹ کر حکومت کو ادا کرتی ہیں۔ اس کے بارے میں تھوڑی سی تفصیل عرض کردیتا ہوں۔

جہاں تک بینکوں اور مالیاتی اداروں سے زکوٰۃ کی کٹوتی کا تعلق ہے تو اس کٹوتی سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے دوبارہ زکوٰۃ ادا کرنے کی ضرورت نہیں البتہ احتیاطاً ایسا کرلیں کہ یکم رمضان آنے سے پہلے دل میں یہ نیت کرلیں کہ میری رقم سے جو زکوٰۃ کٹے گی وہ میں ادا کرتا ہوں، اس سے اس کی زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے دوبارہ زکوٰۃ نکالنے کی ضرورت نہیں۔
البتہ اگر کسی شخص کا سارا اثاثہ بینک ہی میں ہے خود اس کے پاس کچھ بھی موجود نہیں اور دوسری طرف اس کے اوپر لوگوں کے قرضے ہیں تو اس صورت میں بینک تو تاریخ آنے پر زکوٰۃ لیتا ہے حالانکہ اس رقم سے قرضے منہا نہیں ہوتے جس کے نتیجے میں زیادہ زکوٰۃ کٹ جاتی ہے۔ اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ یا تو آدمی وہ تاریخ آنے سے پہلے اپنی رقم بینک سے نکال لے یا کرنٹ اکائونٹ میں رکھ دے بلکہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی رقم کرنٹ اکائونٹ ہی میں رکھے۔ سیونگ اکائونٹ میں بالکل نہ رکھے اس لیے کہ وہ تو سودی اکائونٹ ہے اور کرنٹ اکائونٹ میں منتقل کردے، جب کہ کرنٹ اکائونٹ سے زکوٰۃ نہیں کٹے گی تو آپ اپنے طور پر حساب کرکے قرض منہا کرکے زکوٰۃ ادا کریں۔
دوسرا حل یہ ہے کہ وہ شخص بینک کو لکھ کر دیدے کہ میں صاحبِ نصاب نہیں ہوں اور صاحبِ نصاب نہ ہونے کی وجہ سے میرے اوپر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ اگر یہ لکھ کر دیدے تو قانوناً اس کی رقم سے زکوٰۃ نہیں کاٹی جائے گی۔
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم
 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں