انشورنس کاحکم

فتویٰ نمبر:1097

سوال : انشورنس جائز ہے یا نہیں؟ اس کے متعلق رہنمائی فرمائیں ۔ 

سائل: ریاض علی

کراچی

الجواب باسم ملہم الصواب 

انسان کو مستقبل میں جو خطرات درپیش ہوتے ہیں، کوئی انسان یا ادارہ ضمانت لیتاہے کہ فلاں قسم کے خطرات وحوادث کے مالی اثرات ونقصانات میں تلافی وتدارک کرےگا، اور اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ بیمہ کمپنی(Insured)بیمہ دار(Insurer) سے ایک متعین رقم (حسبِ شرائط) قسط وار وصول کرتی رہتی ہے، اور ایک متعین مدت کے بعد وہ رقم اسے یا اس کے ورثاء کو واپس کردیتی ہے ،اور اصل رقم کے ساتھ مقررہ شرحِ فیصد کے حساب سے کچھ مزید رقم بطورِ سود دیتی ہے ، جسے وہ بونس (منافع) کہتے ہیں ۔

انشورنس کی حقیقت ان بنیادوں پر قائم ہے:

۱-…جو رقم بالاقساط ادا کی جاتی ہے وہ انشورنس کمپنی کے ذمہ قرض ہے اورا س پر جوزائد رقم ملتی ہے جس کو منافع سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ سود ہے ۔ 

۲-  انشورنس کا کاروبار مشروط بالشرط ہوتا ہے اور قرضِ مشروط حرام ہے ۔ 

۳-  انشورنس مؤجل (ادھار)ہوتا ہے اورقرض میں تأجیل صحیح نہیں ۔ 

۴-  کمپنی اس رقم سے لوگوں کے ساتھ سودی معاملہ کرتے ہیں، تو انشورنس کرنے میں گناہ پر تعاون لازم آرہا ہے ۔ 

۵-  انشورنس میں قمار کی صورت پائی جاتی ہے، کیوں کہ اس میں خطر اور غرر پایاجاتا ہے، بیمہ پالیسی خریدنے میں نفع کا معاملہ غیر متعین اور غیر معلوم چیز پر معلق رہتا ہے، حوادث کا حال کسی کو معلوم نہیں کہ واقع ہوں گے یا نہیں، اور ہوں گے تو کب اور کس شکل کے ، ایسی مبہم اور نا معلوم چیز پر کسی نفع کو معلق کرنا شریعت میں قمار کہلاتا ہے، اورقمار کی حرمت نصِ قطعی سے ثابت ہے ، فقہاء نے غرر کی تعریف یہ کی ہے کہ اس کا انجام معلوم نہ ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غرر کے معاملہ سے بھی منع فرمایا ہے

بیمہ کی اقسام

بیمہ کی تین قسمیں ہیں :

(۱)  تامین الحیاۃ (زندگی کا بیمہ )

۔(۲)  تامین الأشیاء (املاک کا بیمہ)۔

(۳)   تامین المسؤلیت (ذمہ داری کا بیمہ)

۱-تامین الحیاۃ :جس کو (Life insurance)یعنی زندگی کا بیمہ کہتے ہیں ، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ بیمہ کمپنی اپنے ڈاکٹر کے ذریعہ بیمہ دار کا طبی معائنہ کراتی ہے ، اور ڈاکٹر اس کی جسمانی حالت دیکھ کر اندازہ کرتا ہے، کہ یہ شخص اتنے سال مثلاً دس سال زندہ رہ سکتا ہے، تو ڈاکٹر کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق کمپنی اس کا دس سال کا بیمۂ حیات مقرر کرتی ہے، اس کے بعد بیمہ کمپنی اور بیمہ دار کے مابین ایک رقم مقرر ہوتی ہے ،جوبیمہ دارکمپنی کو قسط وار ادا کرتا ہے ، مثلاً: ہرماہ سو روپئے قسط متعین ومقرر ہے تو سالانہ بارہ سو روپئے بن گئے، اور دس سال میں بارہ ہزار روپئے جمع ہوگئے ، اب اگر مدتِ مذکورہ سے پہلے بیمہ دار کاانتقال ہوگیا خواہ طبعی موت سے یا کسی حادثہ وغیرہ سے ہو،تو بیمہ کمپنی اصل رقم اس کے ورثاء کو حسبِ شرائط کچھ زائد رقم کے ساتھ واپس کرے گی، اور اگر مدتِ مذکورہ کے بعد انتقال ہو تو اصل رقم مع سود ورثاء کو واپس دے گی، البتہ پہلی صورت میں شرحِ منا فع زائد ہوتے ہیں، اوردوسری صورت میں شرحِ منافع کم ہوتا ہے ۔

۲-تامین الأشیاء: جس کو (Good insurance) اشیاء واملاک کا بیمہ کہتے ہیں ، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سامان مثلاً : گاڑی ، موٹر سائیکل ، عمارت، کار ، اور بحری جہاز وغیرہ کا بیمہ کروانا چاہتاہے ،تو وہ متعین شرح سے بیمہ کمپنی کو فیس اداکرتا ہے، جس کو پریمیم (Premium) کہتے ہیں ، اور اس سامان کو حادثہ لاحق ہونے کی صورت میں کمپنی اس کی مالی تلافی وتدارک کردیتی ہے ، اور اگر اس سامان کو کوئی حادثہ لاحق نہ ہوا ہو، تو ایسی صورت میں بیمہ دار نے جو پریمیم (Premium)ادا کیا ہے ،وہ واپس نہیں ملتا ہے ۔

۳-تامین المسؤلیت: جس کو تھر ڈ پارٹی انشورنس (Thirdparty insurance) یعنی بیمۂ ذمہ داری کہتے ہیں ،اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ بیمہ دار بیمہ کمپنی کو قسط واررقم ادا کرتا ہے ، اوردونوں کے مابین یہ معاہدہ ہوتا ہے کہ اگربیمہ دار کی ذات یا گاڑی وغیرہ سے، کسی دوسرے انسان کو نقصان پہنچے ، اور اس کا تاوان بیمہ دار کے ذمہ لازم ہو ،تو کمپنی ا س تاوان کو ادا کرے گی ۔

بیمہ کی مذکورہ اقسام کا حکمِ شرعی

تامین الحیاۃ (Life insurance)تامین الأشیاء (Good insurance) اور تامین المسؤلیت (Third party insurance) ان تینوں اقسام کو کمر شیل انشورنش (Commercial insurance)کہتے ہیں، چونکہ ان سب میں سود اور جوا پایا جاتا ہے، جو شرعاً ناجائز اور حرام ہیں ، اس لیے یہ بھی ناجائز اور حرام ہوں گے۔

البتہ اگر کسی مقام کے حالات ایسے خراب ہوجائیں کہ جان ومال کا تحفظ اس بیمہ کے بغیر متعذر اور مشکل ہوجائے، یاقانوناً وجبراً لازم ہو ، مثلاً: کار ، گاڑی ، اور موٹر سائیکل وغیرہ بغیر انشورنس کے آپ خرید نہیں سکتے، یا سڑک پر نہیں لا سکتے، تو بربناء ضرورت واضطرار شرعاً بقدرِ ضرورت جواز کی گنجائش ہے ،البتہ اگر اپنی جمع کردہ رقم سے زائد رقم وصول ہو ، تو اس کو بلانیتِ ثواب غرباء وفقراء پر صرف کیا جائے۔

آج کل علمائے کرام نے انشورنس پالیسی کا متبادل تکافل پالیسی نکالا ہے ۔ جہاں مستند علماء کی نگرانی میں یہ کام ہورہا ہو وہاں تکافل پالیسی کروانا جائز ہے جیسے پاک قطر تکافل وغیرہ



الحجۃ علی ما قلنا:

(۱) ما فی ’’ الکتاب‘‘: لقولہ تعالی:{أحل اللہ البیع وحرم الربوا}۔ [البقرۃ:۲۷۵] … {یا أیہا الذین آمنوا لا تأکلوا الربوا أضعافاً مضاعفۃ} ۔ (آل عمران : ۱۳)

ما فی ’’السنن لإبن ماجۃ‘‘: عن عبد اللہ بن مسعود عن أبیہ قال:’’لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربوا وموکلہ وشاہدیہ وکاتبہ ‘‘ ۔

(۱/۱۶۵، سنن أبي داود:۲/۳۷۴، با ب في اکل الربوا)

ما فی ’’السنن الکبری للبیہقی‘‘: عن علي أمیر المؤمنین مرفوعاً: ’’کل قرض جر منفعۃ فہو ربا ‘‘ ۔ (۵/۵۷۱ ، تکملۃ فتح الملہم : ۱/۵۷۴)

ما فی ’’ بدائع الصنائع‘‘: وأما الذي یرجع إلی نفس القرض فہو أن لا یکون فیہ جر منفعۃ، فإن کان لم یجز نحو ما إذا أقرضہ دراہم غلۃ، علی أن یرد علیہ صحاحاً، أو أقرضہ وشرط شرطاً لہ فیہ منفعۃ ، لما روي عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أنہ نہی عن قرض جر نفعاً، ولأن الزیادۃ المشروطۃ تشبہ الربا، لأنہا فضل لا یقابلہ عوض، والتحرز عن حقیقۃ الربا وعن شبہۃ الربا واجب ۔ (۱۰/۵۹۷،۵۹۸،کتاب القرض)

=ما فی ’’ أحکام القرآن للجصاص ‘‘ : ولا خلاف بین أہل العلم في تحریم القمار، وأن المخاطرۃ من القمار، قال ابن عباس: إن المخاطرۃ قمار، وإن أہل الجاہلیۃ کانوا یخاطرون علی المال والزوجۃ، وقد کان ذلک مباحاً إلی أن ورد تحریمہ ۔ (۱/۳۹۸)

(۱) ما فی ’’ أحکام القرآن للجصاص ‘‘ : {فمن اضطر في مخمصۃ غیر متجانف} فإن الاضطرار ہو الضر الذي یصیب الإنسان من جوع أو غیرہ ولا یمکنہ الامتناع منہ، والمعنی ہہنا من إصابۃ ضر الجوع، وہذا یدل علی إباحۃ ذلک عند الخوف علی نفسہ أو بعض أعضائہ، وقد بین ذلک في قولہ تعالی: ’’مخمصۃ‘‘ قال ابن عباس والسدي وقتادۃ : ’’ المخمصۃ المجاعۃ ‘‘ فأباح اللہ عز وجل عند الضرورۃ أکل جمیع ما نص علی تحریمہ في الآیۃ ولم یمنع ما عرض ۔ (۲/۳۹۲، التفسیر الکبیر للرازی : ۴/۲۸۹؍۲۹۰)

ما فی ’’الأشباہ والنظائر‘‘: الضرورات تبیح المحظورات، ومن ثم جاز أکل المیتۃ عند المخمصۃ وإساغۃ اللقمۃ بالخمر ۔ (۱/۳۷)

ما فی ’’ درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام ‘‘ : ’’ الضرر یـزال ‘‘ ۔’’ الحاجۃ تنزل منزلۃ الضرورۃ ‘‘ ۔ ’’ ما أبیح للضرورۃ یتقدر بقدرہا ‘‘ ۔ (۱/۳۷؍۳۸؍ ۴۲)

(۲) ما فی ’’رد المحتار علی الدر المختار‘‘: ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا، لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ ۔ اھـ۔ 

(۹/۵۵۳ ، الحظر والإباحۃ)

ما فی ’’ الفتاوی الہندیۃ‘‘: وإذا مات الرجل وکسبہ خبیث فالأولی لورثتہ أن یردوا المال إلی أربابہ، وإن لم یعرفوا أربابہ تصدقوا بہ ۔ (۵/۳۴۸، الباب الخامس في الکسب)

(ایضاح النوادر:۱۵۲؍۱۵۳)

الحجۃ علی ما قلنا :

(۱) ما في ’’ الفتاوی الولوالجیۃ ‘‘ : رجل طلب من آخر قرضاً بعشرۃ دراہم والمقرض لا یرضی إلا بأکثر لا یجوز ، لأن فیہ الربا۔

(۳/۱۸۴، کتاب البیوع ، الفصل الثاني في الشرط التي تفسد البیع ، مکتبہ دارالایمان سہارنفور)

ما في ’’ أحکام القرآن للجصاص ‘‘ :ولا خلاف بین أہل العلم في تحریم القمار وأن المخاطرۃ من القمار ، قال ابن عباس : إن المخاطرۃ قمار، وإن من أہل الجاہلیۃ کانوا یخاطرون علی المال والزوجۃ ، وقد کان ذلک مباحاً إلی أن ورد تحریمہ ۔ (۱/۳۹۸)

ما في ’’ أحکام القرآن للجصاص ‘‘ : والثاني : أنہ معلوم أن ربا الجاہلیۃ إنما کان قرضاً مؤجلاً بزیادۃ مشروطۃ ، فکانت الزیادۃ بدلاً من الأجل ، فأبطلہ اللہ تعالی وحرمہ وقال : {وإن تبتم فلکم رؤوس أموالکم}۔ وقال تعالی : {وذروا ما بقي من الربا}۔ حظر أن یؤخذ للأجل عوض ، فإذا کانت علیہ ألف درہم مؤجلۃ فوضع عنہ علی أن یعجلہ ، فإنما جعل الحط بحذاء الأجل ، فکان ہذا ہو معنی الربا الذي نص اللہ تعالی علی (۱) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : قال الإمام المرغیناني : فإن تأجیلہ لا یصح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واعتبار الانتہاء لا یصح لأنہ یصیر بیع الدراہم بالدراہم نسیئۃ وہو ربوا ۔ (۳/۷۶ ،کتاب البیوع)

(۲) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : قال اللہ تعالی: {وتعانوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان} ۔ (المائدۃ : ۲)

(۳) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : قال اللہ تعالی:{ إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطٰن فاجتنبوہ} ۔ (المائدۃ : ۹۰)

(اس آیت میں قمار کو شیطانی عمل اور بت پرستی کے برابر جرم قراردیا گیاہے )۔

(۴) ما في ’’ المبسوط للسرخسي ‘‘ : الغرر : ما یکون مستور العاقبۃ ۔

(۱۲/۱۹۴، کتاب البیوع ، دارالمعرفۃ بیروت ، کتاب التعریفات للجرجاني :ص۱۶۴)

(۵) ما في ’’ الصحیح لمسلم ‘‘ :عن أبي ہریرۃ قال : ’’ نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیع الحصاۃ وعن بیع الغرر ‘‘ ۔ (۲/۲)

واللہ اعلم 

بنت عبدالباطن عفی اللہ عنھا

۱۰رجب ۱۴۳۹ھ

۲۸مارچ ۲۰۱۸ع

اپنا تبصرہ بھیجیں