جہیز کی شرعی حیثیت

سوال:کیافرماتے ہیں  علماءکرام دریں مسئلہ کہ جہیز کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ  کو شادی کے موقع پر جہیز  کی حیثیت سے سامان دیا یا حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے مربی ہونے  کی حیثیت سے دیا ؟

حضرت فاطمہ ر.ض کے علاوہ دیگر بنات کو بھی شادی کے موقع پر آپ ص نے سامان دیا ؟ بینوا بالدلائل

الْجَواب حامِداوّمُصلّیاً

جہیز درحقیقت زوج (لڑکے والوں کی) طرف سے زوجہ یا اہل زوجہ کو ہدیہ ہے اور جہیز جو درحقیقت اپنی اولاد کے ساتھ صلہ رحمی ہے فی نفسہ امر مباح بل کہ مستحسن ہے۔ (اصلاح الرسوم،ص:۵۶)

اگر خدا کسی کو دے تو بیٹی کو خوب جہیز دینا برا نہیں مگر طریقے سے ہونا چاہیے  جولڑکی کے کچھ کام بھی آوے۔ (حقوق البیت،ص:۵۲)

جہیز میں اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیے: اوّل تو اختصار یعنی گنجائش سے زیادہ کوشش نہ کرے۔

دوم: یہ کہ ضرورت کا لحاظ کرے یعنی جن چیزوں کی ضرورت فی الحال ہو وہ دینا چاہیے۔

سوم: یہ کہ اعلان نہ ہو؛ کیوں کہ یہ تواپنی اولاد کے ساتھ صلہ رحمی ہے دوسروں کو دکھلانے کی کیاضرورت ہے؟ حضور صلى الله عليه وسلم کے فعل سے جو اس روایت میں مذکور ہے تینوں امر ثابت ہیں۔ (اصلاح الرسوم ص:۹۳)

حضرت فاطمہ رضى الله تعالى عنها کا جہیز

سیّدة النساء حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جہیز یہ تھا: دو یمنی چادر، دو نہالی جس میں اَلْسِی کی چھال بھری تھی، چار گدے، چاندی کے دو بازوبند  ایک کملی  ایک تکیہ  ایک پیالہ ایک چکی  ایک مشکیزہ اور پانی رکھنے کا برتن یعنی گھڑا اور بعض روایتوں میں ایک پلنگ بھی آیا ہے۔ (ازالة الخفا واصلاح الرسوم،ص:۹۳)

حضرت فاطمہ رضى الله تعالى عنها کے جہیز کی حقیقت

ہمارے معاشرے میں جب جہیز کی بات آتی ہے تو سارے عہد نبوی سے ایک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اکلوتی مثال کو اس قدر زور بیان اور قوت استدلال فراہم کردیاجاتا ہے؛ گویا سنت نبوی کا تمام ترانحصار اسی پر ہے۔ سیّدہ فاطمہ رضى الله تعالى عنها کے اسباب کے ذریعے جہیز کو مسنون ثابت کرنے والے شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی اور دیگر صاحب زادیاں تھیں، آپ نے اُنھیں کتنا سامانِ جہیز دیا، اگر نہیں دیا ہے تو کیاوجہ ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم یہ تلقین فرمارہے ہیں: اولاد کو عطیہ دینے میں مساوات کو پیش نظر رکھو۔ (بیہقی)

 فقط وَاللہ اَعْلَمُ 

اپنا تبصرہ بھیجیں