مسجد جائے امن

نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم امّابعد!
وَاِذْ قَالَ اِبْرَاہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَداً اٰمِنًاo
(سورۃ البقرۃ، آیت ۱۲۶)

ابراہیم علیہ السلام کی اتباع کیجیے:
حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام جب اللہ کا گھر بنانے لگے تو اس وقت انہوں نے مختلف دعائیں کیں۔قرآن نے ان دُعاؤں کو نقل کیا ہے ۔ ابراہیم علیہ السلام وہ شخصیت ہیں جن کی اتباع کااللہ نے حکم دیاہے: ’’اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرَاھِیْمَ‘‘ (النحل: آیت ۱۲۳)’’ابراہیم علیہ السلام کی ملت کی اتباع کیجیے‘‘ اس لیے ا ن کا اُسوہ اپنانا، ان کی سیرت پرچلنا اللہ کو مطلوب ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کا گھر بنانے کے بعد یا پہلے جو دُعائیں کی ہیں، قرآن نے ان دُعاؤں کو نقل کیا ہے تا کہ ہم بھی یہ دُعائیں مانگ کر ان کی اتباع کرنے والے بن جائیں۔
بلد اور البلد فرمانے کا نکتہ:
ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ (خانہ کعبہ) بنانے سے پہلے بھی دُعا کی اور بیت اللہ بننے کے بعد بھی دُعا کی۔ قرآن ایک جگہ فرماتا ہے : وَاِذْ قَالَ اِبْرَاہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَداً اٰمِنًاo (بقرہ) ’’اور جب کہا ابراہیم علیہ السلام نے: اے میرے رب !اس (جگہ ) کو ایک امن والاشہر بنا‘‘۔ یہاں پر بلد کا لفظ بغیر الف لام کے ہے عربی قانون کے مطابق بغیر الف ،لام کے جو لفظ ذکر ہو تا ہے وہ معین نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہ دُعا جو ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کی تھی جب اپنی بیو ی اور بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ایک ویران جنگل کی جگہ پر اللہ کے حکم سے چھوڑدیا اس وقت اس جگہ کچھ نہیں تھا تو دُعا کی کہ اس جگہ کو امن والا شہر بنا اور سورہ ابراہیم میں دُعا ھٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا (سورۃ ابرھیم آیت ۳۵ پارہ ۱۳)یعنی بلد پر الف لام ہے جو عربی قانون کے مطابق ایک معین جگہ پر دلالت کرتا ہے چنانچہ یہ دعا انہوں نے شہر بننے کے بعد کی کہ اس شہر کو امن والا بنا۔
شہر بسنے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے:
بہر حال شہر بسنے کے لیے دوچیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک امن اور دوسری کھانے پینے کی چیزوں کی کثرت۔ لہٰذا یہی دُعا کی کہ اس جگہ کو امن والا بنا اور ہر قسم کے پھلوں سے روزی دے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امن نبی کو اتنا مطلوب ہے کہ شہر بننے سے پہلے بھی اور شہر بننے کے بعد بھی اس کی دُعا کی اس لیے کہ یہاں لوگوں نے بیت اللہ کے دیدار اور حج اور طواف کے لیے آنا تھا اگریہاں امن نہیں ہواتو دنیا یہاں نہیں آئے گی اور آبادی نہ ہوسکے گی۔
اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کی دُعا کو قبول کرتے ہوئے ایسے احکام دیے جو بعض تکوینی بھی ہیں بعض تشریعی بھی۔ تشریعی حکم میں ایمان والوں کو حکم دیاکہ یہاں کسی کو قتل نہ کریں کسی وحشی جانور تک کا خون نہ بہائیں، یہاں کے درختوں کو بے جانہ کاٹیں تاکہ یہاں کے لوگوں کو امن مل جائے اور تکوینی اور قدرتی طور پر یہ فیصلہ فافذ کردیا کہ جو جابر اس گھر کو مٹانے آئے گا اللہ اس کو مٹا دیں گے (جیسا کہ ہوا) اللہ نے اس جگہ کو امن والا بنا یا اور ایسے احکامات دیے کہ اس کا امن باقی رہے۔
دنیا کی جتنی مساجد ہیں ان کا تعلق بیت اللہ سے ہے ۔اسی تعلق کی بناء پرہمیں حکم ہے کہ اس کا رُخ اسی گھر کی طرف کریں تو نماز درست ہوگی ورنہ نہ ہوگی یعنی یہ روحانی رشتہ اس مسجد حرام سے مسجدوں کا جڑاہوا ہے گو یا یہ روحانی مرکز ہے جہاں سے ہدایت درجہ بہ درجہ پہنچتی ہے۔
مساجد امن کی جگہیں:
چنانچہ اللہ کو ان مساجد کا امن بھی مطلوب ہے : اللہ نے یہ مساجد اپنے ذکر، نماز اور عبادت کے لیے بنوائی ہیں خود قرآن نے فرمایا: فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ (سورۃ النور آیت ۳۶ پارہ ۱۸) ’’وہ ایسے گھروں میں ہیں جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان کا ادب کیا جائے اور ان میں اللہ کا نام لیا جائے ‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان مساجد میں کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے مسجد میں بدامنی ہو،نمازی مسجد سے بھاگنے لگیں تو یہ اللہ کو اتنا ناپسند ہے کہ اللہ نے اپنے قرآن پاک میں ایسے آدمیوں کو جو اللہ کے گھر میں اللہ کے ذکر سے رکاوٹ بنیں اور بربادی کا سبب بنیں ان کو دنیا کی رسوائی اور آخرت میں عذاب الیم کی وعید سنائی۔ فرمایا : وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّٰہِ (سورۃ البقرۃ، آیت ۱۱۴، پارہ:۱) ’’اور اس سے بڑاظالم کو ن ہے جس نے منع کیا اللہ کی مسجدوں میں کہ لیا جاوے وہاں نام اللہ کااور کوشش کی ان کے اُجاڑنے میں ‘‘۔
اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مسجد میں جھگڑا فساد یا ایسا کام جس سے مسجدمیں تشویش پیدا ہو اس پر اللہ کی پکڑ دنیا میں بھی آتی ہے اور آخرت میں بھی سزا وردردناک عذاب ہوگا۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی آدمی نے غلطی کی جو مسجد میں فساد کاذریعہ بن گئی اب اسی غلطی کے تدارک کے لیے ایسی غلطی کی جاتی ہے جو اس سے بڑے فساد کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اس لیے حضرت عمررضی اللہ عنہ  نے حضرت سعدرضی اللہ عنہ کو نصیحت کی تھی کہ تمہیں یہ چیز دھوکہ میں نہ ڈالے کہ تم آپ ﷺ کے ماموں لگتے ہو اور یہ بات یاد رکھوکہ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتے بلکہ برائی کو بھلائی سے مٹاتے ہیں۔ اس لیے برائی کو مٹانے کی ایسی کوشش جو برائی کو مزید بڑھائے تو یہ ایک نیا فتنہ ہوگا جو اللہ کو انتہائی نا پسند ہے اور برائیوں کے آنے کاذریعہ بنے گا۔ اس لیے ہر مسلمان کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اللہ کا گھر جو مسلمانوں کی روحانی تسکین کا ذریعہ ہے اس میں معاون بنے ۔
کوئی ایسا کام نہ کرے جو مسجد کے امن کو تبا ہ کرنے اور لوگوں کے مسجد چھوڑنے کا ذریعہ بن جائے اور ایسا کا م کرکے کہیں دنیا اور آخرت میں اللہ کے عذاب کے مستحق نہ بن جائیں۔
اللہ جل شانہ  اس سے سب مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔
آمین

 

اپنا تبصرہ بھیجیں