موسیقی والی محفل میں شرکت کرنا

سوال:جس محفل میں میوزک ڈھول باجے گانے ان تمام ممنوعات کا اہتمام ہو وہاں جانا اور وہاں کا کھانا کیسا ہے؟مکروہ ہے حرام ہے؟
الجواب باسم ملھم الصواب
شریعت مطھر میں خوشی و غمی ہر طرح کے حالات کے لیے مستقل احکام دیے گئے ہیں، ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ان احکام کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی گزارے، چنانچہ شادی بیاہ وغیرہ کے موقع پر شرعی پردے کا خیال نہ رکھنا، مخلوط اجتماع کرنا، موسیقی اور شور ہنگامہ کرنا وغیرہ یہ سب ناجائز امور ہیں ۔ ایسی تقریبات جو فی نفسہ تو جائز ہوں، لیکن ان میں غیر شرعی امور (مثلاً مخلوط اجتماع، بے پردگی، موسیقی وغیرہ ) کا ارتکاب کیا جارہا ہو ان میں شرکت کا حکم یہ ہے کہ اگر پہلے سے یہ بات معلوم ہو کہ تقریب میں غیر شرعی امور کا ارتکاب ہوگا تو اس صورت میں ہرگز اس تقریب میں شرکت کے لیے جانا جائز نہیں اور اگر پہلے سے معلوم نہ ہو کہ وہاں کسی معصیت کا ارتکاب ہورہا ہے، بلکہ وہاں جاکر معلوم ہو تو اگر اندر جانے سے پہلے معلوم ہوجائے تو واپس لوٹ آئیں، اندر نہ جائیں۔
اور اگر اندر داخل ہونے کے بعد معصیت کے ارتکاب کا علم ہو اور معصیت کو بند کرنے پر قدرت بھی نہ ہو تو مدعو شخص اگر عالم و مقتدا ہو تو وہ وہاں نہ بیٹھے، بلکہ اٹھ کر واپس چلا جائے، کیوں کہ اس کے وہاں بیٹھنے میں علم اور دین کا استخفاف (اہانت اور توہین) ہے، البتہ اگر مدعو شخص عام آدمی ہو تو وہاں بیٹھ کر کھانا کھانے کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
” وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ”
(سورہ لقمان:6)
ترجمہ:
اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ان باتوں کے خریدار بنتے ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی ہیں، تاکہ اللہ کی یاد سے بے سمجھے گمراہ کرے اور اس کی ہنسی اڑائے ، ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔
حضرات مفسرین نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ آیت کریمہ میں “لهو الحدیث” سے مراد گانا ہے۔

2۔ حدیث نبوی ہے:
“وعن جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء الزرع “۔
(سنن ابی داؤد: 4927)
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : گانا دل میں نفاق کو اس طرح پیدا کرتا ہے، جیسے پانی کھیتی کو اگاتا ہے۔

3۔”رجل دعي إلى وليمة أو طعام وهناك لعب أو غناء جملة الكلام فيه أن هذا في الأصل لايخلو من أحد وجهين إما أن يكون عالماً أن هناك ذاك وإما إن لم يكن عالماً به فإن كان عالماً فإن كان من غالب رأيه أنه يمكنه التغيير يجيب لأن إجابة الدعوى مسنونة قال النبي عليه الصلاة والسلام: «إذا دعي أحدكم إلى وليمة فليأتها» وتغيير المنكر مفروض فكان في الإجابة إقامة الفرض ومراعاة السنة وإن كان في غالب رأيه أنه لا يمكنه التغيير لا بأس بالإجابة لما ذكرنا أن إجابة الدعوة مسنونة ولا تترك السنة لمعصية توجد من الغير ألا ترى أنه لا يترك تشييع الجنازة وشهود المأتم وإن كان هناك معصية من النياحة وشق الجيوب ونحو ذلك؟ كذا ههنا.
وقيل: هذا إذا كان المدعو إماماً يقتدى به بحيث يحترم ويحتشم منه فإن لم يكن فترك الإجابة والقعود عنها أولى وإن لم يكن عالما حتى ذهب فوجد هناك لعباً أو غناءً فإن أمكنه التغيير غير وإن لم يمكنه ذكر في الكتاب، وقال: لا بأس بأن يقعد ويأكل قال أبو حنيفة – رضي الله عنه -: ابتليت بهذا مرةً لما ذكرنا أن إجابة الدعوة أمر مندوب إليه فلايترك لأجل معصية توجد من الغير هذا إذا لم يعلم به حتى دخل فإن علمه قبل الدخول يرجع ولا يدخل، وقيل: هذا إذا لم يكن إماماً يقتدى به، فإن كان لايمكث بل يخرج؛ لأن في المكث استخفافاً بالعلم والدين وتجرئةً لأهل الفسق على الفسق، وهذا لايجوز، وصبر أبي حنيفة – رحمه الله – محمول على وقت لم يصر فيه مقتدى به على الإطلاق ولو صار لما صبر، ودلت المسألة على أن مجرد الغناء معصية وكذا الاستماع إليه وكذا ضرب القصب والاستماع إليه، ألا ترى أن أبا حنيفة – رضي الله عنه – سماه ابتلاء”
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:5/ 128)
فقط۔واللہ اعلم بالصواب
۲صفر۱۴۴۳ھ
30 اگست 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں