تبدیل ماہیت اہم مسائل و فتاوی

فقہیات

(قسط نمبر 3)

انقلابِ ماہیت کے اسباب :

متعدد چیزیں ہیں جن کی وجہ سے ماہیت بدلتی ہے مثلاً جلنا، دھوپ لگنا، کوئی چیز ملانا، مدتوں ایک حال میں رہنا اور زمین میں دفن ہونا وغیرہ۔

پہلا سبب :

جلنا، جل کر مکمل طور پر حقیقت بدل جاتی ہے، جلنے والی کوئی بھی چیز ہو اگر وہ جل کر راکھ ہوگئی تو اس پرپاک ہونے کا حکم لگ جائے گا  مثلاً:

ا) گوبر یا کوئی نجاست جل کر راکھ ہوجائے۔ (امداد الفتاویٰ:۴/۱۰۱)

ب)     ناپاک مٹی سے ہانڈی یا رکابی بنائی اوراسے آگ میں پکادیا۔ (ہندیہ:۱/۴۶)

ج)  نجس کچی اینٹ پک گئی۔ (ایضاً)

دوسرا سبب :

دھوپ لگنا، دھوپ اور ہوا لگنے سے بھی ماہیت میں تبدیلی ممکن ہے، مثلاً:

ا)  ناپاک چمڑا دھوپ سے پاک ہوجاتا ہے۔

ب) ناپاک زمین دھوپ اور ہوا سے پاک ہوجاتی ہے۔ (بدائع:۱/۲۴۵، خانیہ:۱/۲۲)

ج) شراب جو دھوپ میں رہ کر سرکہ بن جائے شراب میں تو تبدیل ماہیت ہوگئی (اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی بھی ناپاک چیز کو محض سکھادینے سے اس کی ماہیت بدل جاتی ہے، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ دھوپ کو بھی انقلابِ ماہیت میں دخل ہے)۔

تیسرا سبب :

کوئی چیز مل کر انقلابِ ماہیت کی مثالیں:

ا)  ناپاک تیل یا چربی جو دیگر اشیاء کے ساتھ مل کر صابن بن جائیں اور اپنی حقیقت کھودیں۔ (ردالمحتار:۱/۵۱۹، زکریا)

ب) یا کوئی دوسری چیز مثلاً: انسان یا کتا صابن بنائے جانے والے برتن میں گرکر صابن بن جائے۔ (طحطاوی علی المراقی: ص/۸۷، شرح منیة المصلی: ص/۱۸۸)

ج) شراب میں نمک یا کوئی اور چیز ڈال کر سرکہ بنالیا گیا۔

کیمیاوی عمل :

آج کل دوا سازی اور دوسرے کیمیکل بنانے والے اکثر ایسا کرتے ہیں کہ کسی بھی چیز میں کیمیکل ملاتے ہیں اور اس چیز کے اندر پائے جانے والے آثار وخواص کو الگ الگ کرتے ہیں، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کیمیاوی عمل سے انقلابِ ماہیت ہوجاتا ہے؟ یا نہیں ہوتا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ کیمیاوی عمل کی دو صورتیں ہوتی ہیں:

ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ اس میں ایسا کیمیکل ڈالاجاتا ہے جس سے شئی کی سابقہ ساری حالت بدل جاتی ہے، پہلے والے آثار وخواص بالکل معدوم ہوجاتے ہیں، یہ صورت بہت کم اختیار کی جاتی ہے۔

دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ شئی میں پائے جانے والے آثار وخواص میں سے مطلوبہ خواص وآثار اچھی طرح الگ ہوجاتے ہیں، پھر الگ کئے ہوئے اجزاء کو مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے دوسری چیزوں میں ملاکر کھانے یا برتنے کی کوئی چیز بناتے ہیں، اب الگ کئے ہوئے اس جز کی قوتِ تاثیر پہلے سے کہیں زیادہ ہوجاتی ہے، اس مضمون کو حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ نے اپنے خاص فلسفیانہ انداز میں سمجھایا ہے (دیکھئے: حجة الاسلام ۱۵۵ تا۱۶۹ اور تقریر دل پذیر ص۱۸۷، ۱۸۸) یہی دوسری صورت زیادہ تر رائج ہے۔

اب یہاں شرعی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس چیز کے پاک یا ناپاک ہونے کا پہلا حکم باقی رہے گا یا نہیں؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ پہلا حکم باقی رہے گا۔

اس لیے کہ یہاں بنیادی عمل ”تجزیہ“ یا ”ترکیب“ ہے اقلاب یا تبدیل نہیں اس لیے اگر وہ چیز حرام یا ناپاک ہے تو اس کا پہلا حکم تجزیہ کے بعد باقی رہے گا، ہاں! اگر وہ چیز پاک تھی تو دیکھیں گے کہ ملایا جانے والا کیمیکل پاک ہے یا ناپاک؟ اگر پاک ہے تو پاکی کا حکم باقی رہے گا اور ناپاک ہے تو ناپاک کی آمیزش کی وجہ سے اس پر ناپاک ہونے کا حکم لگ جائے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ کیمیاوی عمل میں اکثر تجزیہ ہوتا ہے، اس لیے سابق حکم باقی رہے گا، کیوں کہ سابق حالت باقی ہے۔ کیمیکل ملانے سے بو اور ذائقہ اگرچہ بدل جاتے ہیں، مگر شئی کی حقیقت نہیں بدلتی۔

خون سے بنی چیزوں کا حکم :

اس تفصیل سے خون وغیرہ کا حکم بھی واضح ہوگیا کہ اس سے بنائی جانے والی چیز ناپاک ہوں گی معلوم ہوا ہے کہ بعض ”کافی“ وغیرہ میں خون کی ملاوٹ ہوتی ہے اس لیے ملاوٹ کی تحقیق کے بعداس کا استعمال ناجائز ہوگا۔

بسکٹ میں چربی یا حرام اجزاء کی آمیزش :

اگر بسکٹ میں چربی ملی ہوئی ہو تو یہ ایسا ہی ہے، جیسے: پکوان میں تیل اور گھی استعمال کیاجاتا ہے، اس کو انقلاب ہرگز نہیں کہا جاسکتا، یہ تو ترکیب اور اختلاط ہے، اس سے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، اس لیے چربی کے بدستور حرام رہنے کی وجہ سے بسکٹ کھانا حرام ہوگا، متعدد اجزاء سے بنی ہوئی چیز میں اگر ایک چیز بھی ناپاک یا حرام ہوتو اس پر حرام ہونے کا حکم لگتا ہے، اِخْتِلَاطُ النَّجِسِ بِالطَّاہِرِ یُنَجِّسُه، ہٰذَا ہُو الصَّحیحُ․ (حلبی کبیر:ص/۱۸۸)

خنزیر کی چربی اور اس کے دیگر اجزاء کا استعمال پہلے عام نہیں تھا، اب اس کا رواج عام ہوگیاہے، مختلف اجزاء کو کیمیاوی طور پر الگ کرکے الگ الگ چیزوں میں استعمال کرتے ہیں، اس لیے پہلے سے زیادہ آج احتیاط کی ضرورت ہے۔

ٹوتھ پیسٹ میں ہڈیوں کے پاؤڈر کی آمیزش :

اگر ٹوتھ پیسٹ میں حرام جانوروں کی ہڈی یا اس کے گوشت کا پاؤڈر ملایا جائے تو یہ بھی ترکیب واختلاط ہے انقلابِ ماہیت نہیں ہے؛ اس لیے ایسے ٹوتھ پیسٹ کا استعمال جائز نہ ہوگا، اگرچہ ہڈی اور گوشت کا مزہ بدل گیا ہو، اس لیے کہ شئی کی ماہیت باریک ہوگئی ہے اور دیگر کیمیکلوں سے اس کا اصل مزہ دب گیا ہے۔

ہاں! اگر حلال جانوروں کی ہڈی کا سفوف ٹوتھ پیسٹ میں ڈالا جائے یا بسکٹ میں ملایا جائے تو چوں کہ ہڈی ان اجزاء میں سے ہے  جن میں خون سرایت نہیں کرتا اور اس کا کھانا جائز ہے، اس لیے ہڈی کے حلال ہونے کی وجہ سے توتھ پیسٹ اور بسکٹ کا استعمال جائزہوگا۔

فلٹر کے بعد پیشاب کا حکم :

 پیشاب بذاتِ خود نجس ہے، اس لیے فلٹر کے ذریعہ اگر اس کی بدبو وغیرہ نکال دی جائے تب بھی وہ پیشاب ہی رہے گا اس لیے کہ یہاں پیشاب کی عینیت باقی ہے، استحالہ نہیں، بلکہ تجزیہ ہے۔

فلٹر کے بعد تالاب کا گندہ پانی :

تالاب کا گندہ پانی بذاتِ خود ناپاک نہیں، بلکہ اس میں نجاست گرگئی ہے، اس لیے اس کو اگر فلٹر کیاجائے تو بعض معاصر اہلِ علم کے نزدیک وہ پاک ہوجائے گا، جیساکہ بعض کم پانی والے علاقوں میں ایسا کیا جاتا ہے اور فقہ اکیڈمی جدہ نے ایسے پانی کے چار مراحل میں فلٹر کئے جانے اور سابق آثار وخواص کے بدل جانے کے بعد پاک ہوجانے کا فیصلہ کیا ہے۔ (دیکھیے: پانچواں فیصلہ: فقہ اکیڈمی جدہ، بحوالہ فقہی فیصلے: ص/۲۲۶، فقہ اکیڈمی انڈیا)

ماحولیات کی درستگی کے لیے غلاظتوں کو مشین سے صاف کرنا :

غلاظتوں سے پھیلنے والے تعفن کو ختم کرنے کے لیے مشینوں سے صفائی کا عمل کیا جاتا ہے، اس عمل سے انقلابِ ماہیت نہیں ہوتا، جب انقلاب نہیں ہوتا تو نجاست کا حکم باقی رہے گا، ختم نہیں ہوگا۔

چوتھا سبب :

طولِ مکث (مدتوں ایک حالت میں رہنا) اس سے بھی ماہیت بدلتی ہے۔ (بدائع: ۱/۲۴۳، طحاوی: ص/۸۷، خانیہ: ۱/۲۲) اس کی مثالیں درج ذیل ہیں:

ا)  شراب کبھی طولِ مکث سے بھی سرکہ بن جاتی ہے۔

ب) خون مشک بن جاتا ہے۔

ج) صابن بننے کے بعد تیل اور چرپی کی دسومت شوریت کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہے، (فتاویٰ مظاہر علوم:۱/۲۱) اس میں طولِ مکث بھی ہے اور اختلاط بھی۔

پانچواں سبب :

زمین میں دفن ہونے کی وجہ سے انقلابِ ماہیت ہوتا ہے، مثلاً: نجاست مٹی میں دفن ہونے کے بعد کافی مدت کے بعد مٹی ہوجاتی ہے۔ (بدائع: ۱/۲۴۳، بیروت) یہاں طولِ مکث بھی شامل ہے۔

چھٹا سبب :

قدرتی طور پر انقلابِ ماہیت کی مثالیں بھی بہت سی ہیں؛ مثلاً:

الف) پاک غذا سے خون بننا۔

ب) خون کا نطفہ بننا۔

ج) علقہ کامضغہ بننا۔

د)    عصائے موسیٰ کا سانپ بننا۔ (ردالمحتار:۱/۳۴، رشیدیہ) معجزہ اور سحر میں یہی فرق ہے کہ سحر میں اشیاء کی حقیقت تبدیل نہیں ہوتی اور معجزہ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ (تفسیر کبیر: طٰہ:۲۰)

(مستفاد از مضمون مفتی اشتیاق احمد قاسمی مدظلہم)

ناشر :دارالریان کراتشی

اپنا تبصرہ بھیجیں