افطار کا وقت

گذشتہ روز ایک مجہول شخص کی ویڈیو موصول ہوئی جس میں اس شخص نے افطار کے وقت پر اشکال ظاہر کیا تھا اور قرآنی آیات اور احادیث نبویہ سے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ غروب آفتاب کے وقت إفطار کرنا سنت اور شریعت کے خلاف ہے اور آپ علیہ السلام کا طریقہ بھی نماز مغرب ادا کرنے کے بعد افطار کا تھا.

 الجواب باسمه تعالی

قرآن کریم میں روزے کی جو حد مقرر کی گئی ہے: 

ثم اتموا الصيام الى الليل

روزے کی تکمیل کی آخری حد “رات” ہے.

“رات کی ابتداء” کے وقت کے بارے میں اہل لغت کے اقوال مندرجہ ذیل ہیں:

 جاء في “القاموس المحيط” (1364):

“اللَّيْلُ: من مَغْرِبِ الشمسِ إلى طُلوعِ الفَجْرِ الصادِقِ أو الشمسِ” … انتهى.

وجاء في “لسان العرب” (11/607):

“اللَّيْلُ: عقيب النهار، ومَبْدَؤُه من غروب الشمس” … انتهى.

یعنی رات کی ابتداء سورج غروب ہوتے ہی ہوجاتی ہے.

علماء مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں افطار کا حکم بھی بیان کیا ہے کہ افطار میں جلدی کرنی چاہیئے.

 وقال الحافظ ابن كثير رحمه الله في تفسير هذه الآية: وقوله تعالى: {ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ} يقتضي الإفطار عند غُرُوب الشمس حكمًا شرعيًا” … انتهى.

(تفسير القرآن العظيم 1/517).

بل نبه بعض المفسرين إلى أن استعمال حرف الجر (إِلَى) في الآية يفيد التعجيل أيضا، لما تحمله دلالة هذا الحرف من انتهاء الغاية.

 قال العلامة الطاهر ابن عاشور رحمه الله: (إِلَى اللَّيْلِ) غاية اختير لها (إِلَى) للدلالة على تعجيل الفطر عند غروب الشمس؛ لأن (إِلَى) لا تمتد معها الغاية، بخلاف (حتى)، فالمراد هنا مقارنة إتمام الصيام بالليل”.. انتهى. (التحرير والتنوير 2/181)

 علامہ نووی کی تشریح:

ليس هناك إشكال بين الآية وبين إفطار الصائم بعد غروب الشمس، وذلك لأن الليل يدخل بغروب الشمس، فأول الليل هو غروب الشمس، وآخره طلوع الفجر. ولذلك قال النبي صلى الله عليه وسلم: “إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ، وَغَابَتْ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ”.

ومعنى الحديث: أنه إذا غربت الشمس فقد دخل الليل، وانتهى النهار، وحينئذ يحل للصائم أن يفطر. [انظر: شرح مسلم للنووي (7/209)].

☆ گویا علمائے لغت اور اہل تفسیر اس بات کو واضح کررہے ہیں کہ سورج غروب ہوتے ہی رات شروع ہوجاتی ہے اور إفطار کا یہی وقت مطلوب ومحبوب ہے.

 احادیث کی روشنی میں

 حدیث نمبر ١:

قال اللهُ عزوجل: أَحَبُّ عبادِي إلَيَّ، أَعْجَلُهُم فِطْرًا.

 الراوي: أبوهريرة.

المحدث: الترمذي.

 المصدر: سنن الترمذي.

الصفحة أو الرقم: 700

 خلاصة حكم المحدث: حسن.

 اللہ رب العزت کے محبوب بندے وہ لوگ ہیں جو افطار میں جلدی کرتے ہیں.

 حدیث نمبر ٢:

عَنْ سَهْلِ بن سَعْدٍ السَّاعِدِي رَضيَ الله عَنْهُ أنَّ رَسُولَ الله صلى الله عليه وسلم قال: “لا يَزَالُ النَّاسُ بَخَيْر مَا عَجَّلُوْا الفِطْرَ وَأَخَّروا السُّحُوْر”. (متفق عليه، البخاري1957- مسلم 1097)

میری امت اس وقت تک خیر پر رھیگی جب تک وہ افطاری میں عجلت اور سحری میں تاخیر کو اختیار کریگی.

اس روایت کی شرح میں محدثین فرماتے ہیں:

قال المُناوي في فيض القدير (6/583): قوله: “لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر” أي ما داموا على هذه السنة؛ لأن تعجيله بعد تيقن الغروب من سنن المرسلين، فمن حافظ عليه تخلق بأخلاقهم؛ ولأن فيه مخالفة أهل الكتاب في تأخيرهم إلى اشتباك النجوم، وفي ملتنا شعار أهل البدع، فمن خالفهم واتبع السنة لم يزل بخير، فإن أخَر غير معتقد وجوب التأخير ولا ندبه فلا خير فيه.

 علامہ مناوی رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ افطار میں جلدی کرنا تمام انبیائے کرام علیھم السلام کی سنت ہے اور تاخیر کرنا اہل کتاب کا طریقہ ہے، پس افطار میں جلدی کرنا ہی سنت اور خیر کا راستہ ہے.

 حدیث نمبر ٣:

قال الشيخ آل بسام: الحديث من معجزات النبي صلى الله عليه وسلم، فان تأخير الإفطار عمل به الشيعة، الذين هم إحدى الفرق الضالة، وليس لهم قدوة في ذلك إلا اليهود، الذين لا يفطرون إلا عند ظهور النجوم.

حديث أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “لا يزال الدين ظاهرا ما عجل الناس الفطر لأن اليهود والنصارى يؤخرون”.

 آپ علیہ السلام کے عظیم معجزات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ علیہ السلام نے امت کیلئے یہود اور نصاری کی مخالفت کی واضح نشانی بیان فرمائی کہ وہ افطار میں تاخیر کرتے تھے اور تم لوگ جلدی کرو.

– اسی بات کو علامہ نووی رحمه اللہ نے شرح مسلم میں ذکر کیا ہے:

قال النووي رحمه الله في شرح مسلم (4/225): قوله صلي الله عليه وسلم: “لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر” فيه الحث علي تعجيله بعد تحقق غروب الشمس، ومعناه: لا يزال أمر الأمة منتظماً وهم بخير ما داموا محافظين على هذه السنة، وإذا أخروه كان ذلك علامة على فساد يقعون فيه.

یعنی کہ افطار میں تاخیر کرنا اس امت کے فساد میں واقع ہونے کی علامت ہے.

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کا عمل:

دخلتُ أنا ومسروقٌ على عائشةَ فقلنا: يا أمَّ المؤمنينَ! رجلانِ من أصحابِ محمد صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أحدُهما يعجِّلُ الفِطرَ ويعجِّلُ الصَّلاةَ والآخرُ يؤخِّرُ الإفطارَ ويؤخِّرُ الصَّلاةَ قالَت: أيُّهُما يعجِّلُ الإفطارَ ويعجِّلُ الصَّلاةَ؟ قلنا: عبدُاللَّهِ بنُ مسعودٍ؛ قالَت: هَكذا صنعَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ والآخرُ أبوموسى.

 الراوي: عمرو بن أبي جندب أبوعطية الوادعي.

 المحدث: الألباني .

 المصدر: صحيح الترمذي.

 الصفحة أو الرقم: 702

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنه کے عمل کو بہتر قرار دیا کہ وہ افطار میں جلدی کرتے تھے.

(4/21) عن أبي حمزة الضبعي: أنه كان يفطر مع ابن عباس في رمضان فكان إذا أمسى بعث ربيبة له تصعد ظهر الدار فلما غربت الشمس آذنته فيأكل ونأكل، فإذا فرغ أقيمت الصلاة فيقوم يصلي ونصلي معه.

 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنهما غروب کے فورا بعد افطار کرتے.

 وأخرج عبدالرزاق في “المصنف” (4/225) بسنده عن المسيب قال: كنت جالساً عند ابن عمر إذ جاءه ركب من الشام فطفق عمر يستخبر عن حالهم فقال: هل يعجل أهل الشام الفطر؟ قال نعم، قال: لن يزالوا بخير ما فعلوا ذلك و لم ينتظروا النجوم انتظار أهل العراق.

 حضرت عمر رضی اللہ عنه کو امت کے جلدی افطار کرنے کی فکر رہتی تھی.

وأخرج بسنده عن عمرو بن ميمونة الاودي قال: كان أصحاب محمد صلي الله عليه وسلم أسرع الناس إفطاراً وأبطأهم سحورا.

 صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین عموما افطاری میں جلدی کرتے تھے.

 قال ابن حزم في المحلى (6/281):

مسئلة: ومن السنة تعجيل الفطر وتأخير السحور وإنما هو مغيب الشمس عن أفق الصائم ولا مزيد -إلى أن قال: وتعجيل الفطر قبل الصلاة والأذان أفضل! كذلك روينا عن عمر بن الخطاب وأبي هريرة وجماعة من الصحابة رضي الله عنهم.

 علامہ ابن حزم رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین عموما سورج غروب ہوتے ہی افطار کرتے.

 فقہاء اور محدثین کی رائے:

وترجم البخاري فقال: (باب تعجيل الإفطار) ..وساق حديث سهل بن سعد أن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: “لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر”

 امام بخاری رحمه اللہ نے بخاری شریف میں باقاعدہ جلدی افطار کرنے کا باب قائم فرمایا.

 قال الحافظ: وفي الحديث أيضا استحباب تعجيل الفطر وأنه لا يجب إمساك جزء من الليل مطلقاً بل متى تحقق الغروب حل الفطر.

 حافظ ابن حجر رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ روایات میں جلدی افطار کا حکم مطلوب ہے اور یہ وقت غروب ہوتے ہی شروع ہوجاتا ہے.

 قد ذكر أبوحاتم ابن حبان أبوابا ذكر فيه هذه الاحاديث و ترجم له بعناوين مهمة وذكر عنوانا قال: ان عين الشمس إذا سقطت حل للصائم الإفطار (الإحسان بترتيب صحيح ابن حبان؛ ط: دار المعرفة، ص: 973)

 اسی طرح امام ابوحاتم نے صحیح ابن حبان میں ابواب ذکر کئے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ سورج کی ٹکیہ غروب ہوتے ہی روزےدار کیلئے افطار حلال ہوجاتا ہے.

 حضور علیه السلام کے سفر کا واقعہ:

قال الإمام البخاري رحمه الله: (باب متي يحل فطر الصائم) وأفطر أبوسعيد الخدري حين غاب قرص الشمس ..ثم ساق بسنده حديث عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلي الله عليه و سلم: “إذا أقبل الليل من هاهنا، وأدبر النهار من هاهنا، وغربت الشمس فقد أفطر الصائم”. وساق حديث عبدالله بن أبي أوفى رضي الله عنه قال: كنا مع رسول الله صلي الله عليه وسلم في سفر وهو صائم، فلما غابت الشمس قال لبعض القوم: “يا فلان! قم فاجدح لنا” فقال: يارسول الله! لو أمسيت، قال: “انزل فاجدح لنا” قال: يارسول الله فلو أمسيت، قال: “انزل فاجدح لنا” قال: إن عليك نهارا، قال: “إنزل فاجدح لنا” فنزل فجدح لهم فشرب النبي صلي الله عليه وسلم ثم قال: “إذا رأيتم الليل قد أقبل من هاهنا فقد أفطر الصائم”. قال الحافظ ابن حجر: ووجه الدلالة منه أن اباسعيد لما تحقق غروب الشمس لم يطلب مزيدا علي ذلك ولا التفت إلي موافقة من عنده على ذلك.

 اس واقعہ میں حضرت بلال رضی اللہ عنه حضور علیہ السلام کے ساتھ تھے، آپ علیہ السلام بار بار حضرت بلال کو ستو تیار کرنے کا حکم دے رہے تھے اور حضرت بلال رضی اللہ عنه عرض کررہے تھے کہ ابھی تو دن باقی ہے، آپ علیہ السلام نے ستو پیا اور فرمایا کہ جب سورج غروب ہو اور رات مشرق کی طرف سے پھیلنی شروع ہوجائے بس یہی افطار کا وقت ہے. 

 اور اسی عمل کو صحابہ نے بھی اختیار کیا کہ محض سورج کے غروب ہونے کو یقینی بنایا، نہ کہ پوری طرح اندھیرے کے پھیلنے کا انتظار کیا.

 حضور علیه السلام کی مغرب کی نماز:

اس ویڈیو میں یہ دعوی کیا گیا کہ حضور علیہ السلام ہمیشہ پہلے مغرب کی نماز پڑھتے تھے اور پھر افطار کرتے تھے.

یہ دعوی بلا دلیل ہے اور ایسی کوئی روایت ذخیرہ احادیث میں موجود نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس روایات موجود ہیں جن میں افطار کو مقدم کرنے کی سنت کا ذکر ہے.

 عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قط صلى صلاة المغرب حتى يفطر ولو على شربة من ماء.

(رواه أبو يعلى وابن خزيمة وابن حبان في صحيحيهما) 

 حضرت انس رضی اللہ عنه فرماتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے کبھی افطار کے بغیر نماز نہیں پڑھائی، اگرچہ کچھ نہ ہوتا تو پانی کے ایک گھونٹ سے ہی روزہ کھولتے.

 خلاصہ کلام

افطاری کا وقت سورج غروب ہوتے ہی شروع ہوجاتا ہے اور فورا افطاری کرنا تمام انبیائے کرام علیھم السلام کی سنت ہے اور بلاعذر تاخیر کرنا یہود و نصاری اور رافضیوں کا شیوہ ہے.

اور اس ویڈیو میں بیان کردہ تمام روایات کا غلط معنی اور مطلب پیش کرکے گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے.

واللہ اعلم بالصواب

کتبه: عبدالباقی اخونزادہ

اپنا تبصرہ بھیجیں