ازدواجی “شکوہ اور جواب شکوہ”

صرف وہ لطف اندوز ہوں گے جو علامہ محمد اقبال کا شکوہ اور جواب ِ شکوہ پڑھ چکے ہیں اور شادی شدہ بھی ہیں

ازدواجی

“شکوہ اور جواب شکوہ”

شاعر- نامعلوم

شوہر کا شکوہ!!!

کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں

زن مریدی ہی کروں میں اور مدہوش رہوں

طعنے بیگم کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں

ہم نوا میں کوئی بزدل ہوں کہ خاموش رہوں

جرات آموز مری تاب ِسخن ہے مجھ کو

شکوہ اک زوجہ سے ! خاکم بدہن ہے مجھ کو

تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی رشتہ ترا

سر پٹختے ہوئے پھرتا تھا کبھی اّبا ترا

کس قدر خوش تھا میں جس دن تیرا ڈولا نکلا

تیرا ڈولا تو مگر موت کا گولا نکلا

تو جو سوتی ہے تو سالن بھی پکاتا ہوں میں

ٹیپو روتا ہے تو فیڈر بھی بناتا ہوں میں

گڈی جاگے ہے تو جھولا بھی جھلاتا ہوں میں

پّپو اٹھ بیٹھے جو راتوں کو کھلاتا ہوں میں

پھر بھی مجھ سے یہ گلا ہے کہ وفادار نہیں

میں وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں

ہےبجا حلقہ ازواج میں مشہور ہوں میں

تیرا بیرا، تیرا دھوبی ، تیرا مزدور ہوں میں

زن مریدی کا شرف پاکے بھی رنجور ہوں میں

قصہ درد سناتاہوں کہ مجبور ہوں میں

میری مخدومہ میرے غم کی حکایت سن لے

ناز بردار سے تھوڑی سی شکایت سن لے

زچہ بن بن کے بجٹ میرا گھٹایا تو نے

ہر نۓ سال نیا گل ہے کھلایا تو نے

رشتہ داروں نے تیرے ، جان میری کھائی ہے

فوج کی فوج میرے گھرمیں جو در آئی ہے

کوئی ماموں ، کوئی خالو ، کوئی بھائی ہے

بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے

کیسے غربت میں ، میں پالوں تیرے غم خواروں کو

ان ممولوں کو سنبھالوں یا چڑی ماروں کو

میں وہ شوہر ہوں کہ خود آگ جلائی جس نے

لا کے بستر پہ تجھے چاۓ پلائی کس نے

تو ہی کہہ دے تیرا حسن نکھارا کس نے

اس بلیک آؤٹ سے مکھڑے کو سنوارا کس نے

کون تیرے لیے درزی سے غرارا لایا

واسطہ دے کے غریبی کا خدارا لایا

پھر بھی مجھ سے گِلا کہ کماتا کم ہوں

لے کے شاپنگ کے لیے تجھ کو، میں جاتا کم ہوں

نوجوانی میں تجھے عیش کراتا کم ہوں

اور پلازا میں تجھے فلم دکھاتا کم ہوں

کاش نوٹوں سے حکومت میری جیبیں بھردے

مشکلیں شوہرِ مظلوم کی آسان کر دے

محفلِ شعرو سخن میں تو چمک جاتا ہوں میں

تیری سرکار میں پہنچوں تو دبک جاتا ہوں میں

تو جو بلغم بھی کھنگارے تو ٹھٹک جاتا ہوں میں

گھور کر دیکھے تو پیچھے کو سرک جاتا ہوں میں

پھر بھی مجھ سے یہ گلا ہےکہ وفادار نہیں

توہے بیکار تیرے پاس کوئی کار نہیں۔

⭕بیوی کا جوابِ شکوہ⭕

تیری بیوی بھی صنم تجھ پہ نظر رکھتی ہے

چاہے میکے ہی میں ہو تیری خبر رکھتی ہے

اُسکی سینڈل بھی میاں اتنا اثر رکھتی ہے

پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

شعر تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک ترا

دل، جگر چیر گیا نالہء بیباک ترا

آئی آواز ٹھہر تیرا پتا کرتی ہوں

تُو ہے اَپ سیٹ میں ابھی تیری دوا کرتی ہوں

میں تجھے پہلے بھی اکثر یہ کہا کرتی ہوں

ارے کمبخت! بہت تیری حیا کرتی ہوں

اور تو ہےکہ بڑی نظمیں ہے پڑھتا پھرتا

اپنے یاروں میں بڑا اب ہے اکڑتا پھرتا

میں دکھاتی ہوں ابھی تجھ کو بھی نقشہ تیرا

نہ کوئی قوم ہے تیری نہ ہے شجرہ تیرا

بھائی تیرے ہیں سبھی مجھ کو تو غُنڈے لگتے

یہ ترے کان کڑاہی کے ہیں کُنڈے لگتے

اپنی شادی پہ عجب رسم چلائی کس نے؟

نہ کوئی بس نہ کوئی کار کرائی کس نے؟

آٹو رکشے ہی پہ بارات بُلائی کس نے ؟

منہ دکھائی کی رقم میری چرائی کس نے ؟

کچھ تو اب بول ارے! نظمیں سنانے والے

مولوی سے میرا حق ِمہر چھڑانے والے

صاف کہہ دے مجھے کس کس پہ ہے اب کے مرتا؟

رات کے پچھلے پہر کس کو ہے کالیں کرتا ؟

کس کے نمبر پہ ہے سو سو کا تُو بیلنس بھرتا ؟

چل بتا دے مجھے‘ اب کاہے کو تُو ہے ڈرتا

ورنہ ابّے کو ابھی اپنے بُلاتی میں ہوں

آج جوتے سےمزا تجھ کو چکھاتی میں ہوں

اپنی تنخواہ فقط ماں کو تھمائی تُو نے

آج تک مجھ کو کبھی سیر کرائی تُو نے؟

کوئی ساڑھی، کوئی پشواز دلائی تُو نے؟

ایک بھی رسم ِوفا مجھ سے نبھائی تو نے؟

لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزا جینے میں

کتنے ارمان تڑپتے ہیں مرے سینے میں

بھول ابّا سے ہوئی اور سزا مجھ کو ملی

ماں بھی جان گئی کیسی بلا مجھ کو ملی

میں نے چاہی تھی وفا اور جفا مجھ کو ملی

میری تقدیر ہی دراصل خفا مجھ کو ملی

میرے میکے سے جو مہمان کوئی آتا ہے

رنگ ترے چہرے کا اسی وقت بدل جاتا ہے

سامنے آنے سے اّبا کے تُو کتراتا ہے

کتنا سادہ ہے کہتا ہے کہ ”شرماتا ہے“

تُو ہوا جس کا مخالف وہ تری ساس نہیں؟

میری عزت کا ذرا بھی تجھے احساس نہیں !

ہڈی پسلی میں تری توڑ کے گھر جاؤں گی

ارے گنجے! ترا سر پھوڑ کے گھر جاؤں گی

سَرّیا گردن کا تری موڑ کے گھر جاؤں گی

سارے بچوں کو یہیں چھوڑ کے گھر جاؤں گی

یاد رکھنا ! میں کسی سے بھی نہیں ڈرتی ہوں

آخری بار خبردار تجھے کرتی ہوں!

اپنا تبصرہ بھیجیں