بچوں کے تحائف کا شرعی حکم

 سوال: کیافرماتے ہیں ،مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں

1)بچے کی پیدائش کے وقت  جو لفافے  بچہ کو دیے جاتے ہیں ، ان لفافوں میں بچہ کی ملکیت  ہوتی ہے  ؟ یا والدین  کی ہوتی ہے ؟

ہمارے  یہاں  یہ بات  مشہور  ہے کہ رشتہ داروں  میں جہاں کہیں بھی بچہ  وغیرہ آتے ہیں تو لین دین   بڑے کرتے ہیں   ( ماں  باپ / دادا دادی)  تو لہذا یہ لفافے  والدین   کے سمجھے  جاتے ہیں ۔

واضح رہے  کہ ہمارے یاہں بچہ کو منہ دکھائی کا لفافہ الگ دیاجاتاہے  اور کپڑے  وغیرہ کا  لفافہ  ( جوخاص  رشتہ داروں  کی طرف سے دیا جاتا ہے )

 برائے کرم ان دونوں کا حکم بھی بیان کیجیے ۔

2) بسااوقات  ایسا ہوتا ہے کہ بچہ  کی  پیدائش کے مرحلہ  میں جو اخراجات  درپیش ہوتے ہیں  ،ا س میں والدین خرچ  کرنے کی طاقت  نہیں رکھتے  تو پھر بچہ  کا دادا ( دادی)  اس کا خرچہ  اٹھاتے ہیں ۔ 

مثلاً 1۔ ڈلیوری  کا خرچہ 2/  لوگوں  میں مٹھائی کی تقسیم کا خرچہ  ، 3/ عقیقہ کا خرچہ 4، بچہ کی پیدائش کے وقت  جو مہمان آتے ہیں ان کے اکرام  وغیرہ کا خرچہ

ان مراحل میں لفافے کا حق دار کون  ہوگا؟

اور دادا، دادی  ان لفافے  کو  رکھ سکتے ہیں ؟

برائے کرم تفصیل  کے ساتھ وضاحت فرمائیں ۔

3) بچے کی پیدائش کے وقت  جو  کپڑے  بچہ کے لیے آتے ہیں ، اس میں  معاملہ  یہ ہوتا ہے کہ جب تک  بچہ کو کپڑے  پورے ہوتے ہیں ا س وقت  تک تو اسی کےاستعمال  میں آتے ہیں لیکن  اگر وہ کپڑے چھوٹےہوں یا بچہ کا قد بڑھ جاتا ہے، تو ان کپڑوں کو ہم کسی اور کو  ہدیہ  دیتے ہیں  یا اپنے ہی دوسرے بچوں کے لیے رکھ  لیتے ہیں اس کا کیا حکم ہے ؟

4) ہم نے یہ مسئلہ بھی سناہے  کہ جو کپڑے بچوں کے لیے  بناتے ہیں  تو وہ کپڑے کسی اور کواپنی مرضی سے نہیں دےس کتے وہ کپڑے  بچہ  کی ہی ملکیت  ہوجاتی ہے ۔

مثلا:  بچہ کے لیے سوٹ بنایا اور وہ چھوٹا ہوگیا تو کیاوہ کسی اور کودیاجاسکتا ہے ؟

 برائے کرم اس  مسئلہ کی وضاحت فرمائیں  اور اگر مسئلہ یہی ہے جیسا کہ ہم نے سنا ہے تو یہ تو  بڑ امشکل معلوم ہوتا ہے لہذا کوئی آسان حل  بھی بیان کیجیئے۔

5) ہمیں کسی نے بتایاہے کہ بچے  کے پیسے  ضرورت  میں استعمال  کیے جاسکتے ہیں لیکن ایسی ضرورت  جو خود  بچہ ہی  پرختم ہوجائے، جیسے : اسکول کی فیس ، پیمپر ، دوائی وغیرہ  

لیکن اگر ایسی چیزیں  خریدی  جیسے  کھلونا وغیرہ  تو وہ ہم کسی اور کو تو نہیں دے سکتے ( جیسے اگر بچوں نے  کھلونےسے نہیں کھیلا  ) تو اگر ہم یہ کھلونے کسی اور کو دیں گے  تو اتنی ہی رقم اپنے پیسوں سے نکال کر بچے کے پیسے میں ڈالتے ہوں گے ۔

یہ بات صحیح ہے؟  اور شرعی لحاظ سےا س کا کیا حکم ہے ؟

الجواب حامداومصلیاً

  • بچے کی ولادت کے موقع پر جو تحائف  دیے جاتے ہیں ان کی تفصیل یہ ہے کہ اگر تحفہ  دینے والا بچے یا بچے  کے والدین  میں سے کسی کی تعیین  کرکے اسے مالک بناکر دے  تو وہ تحفہ  اسی کی ملک ہوگا جس کی تعیین کی گئی ۔ا وراگر تحفہ دینے والے  نے کسی کی تعین نہیں کی تو اس  صورت  میں ان تحائف  میں سے جو چیزیں  فی الحال  بچے کےا ستعمال  کی ہوں مثلا کپڑے ۔ جھولا یا بستر  وغیرہ  تو ایسی  چیزیں  اسی بچے کی ملک ہوں گیا ور اسی  کے لیے  خاص ہوں گی  ،ا ور جو چیزیں فی الحال بچے کے استعمال کی نہ ہوں مثلا نقد رقوم  یا گھریول استعمال کی چیزیں اگر بچے  کے والد  کے رشتہ داروں  کی طرف  سے دی گئی ہوں تو بچے کے والد  کی ملک ہوں گی ، اور اگر بچے کی والدہ  کے رشتہ  داروں  کی طرف  سے دی گئی ہوں  تو وہ بچے  کی والدہ  کی ملک ہوں گی ۔ ( ماخذہ التبویب  : 493/37)
  • بچے کی ولادت کے موقع  پر ملنے والے تحائف  کا حکم تو وہی  ہے جو جواب نمبر (1)  میں بیان ہوا ۔اوراسی کے مطابق  عمل کیاجائے  گا ۔ا لبتہ   بچے کی  پیدائش  کے موقع  پر بچے  کے دادا  دادی جو اخراجات  کریں ا س کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ یہ اخراجات  بطور احسان  کریں تو وہ ان اخراجات   کےبدلے  میں نہ تو تحائف  وصول کرسکتے ہیں اور نہ ہی بچے  کے والدین  سے ان اخراجات  کا مطالبہ کرسکتے ہیں ۔ لیکن اگر انہوں نے تمام اخراجات  بطور احسان  نہ کیے ہوں تو ا س صورت  میں یہ تمام اخراجات  بچے کے والد کے ذمہ قرض  ہوں گے  ۔ا ور اس سے ان اخراجات کو لوٹانے کا  مطالبہ کیاجاسکتا ہے۔ تاہم ا س صورت  میں  بھی انہیں  یعنی دادا دادی کو تحائف  اپنے پاس رکھنے کا حق نہیں ہوگا۔
  • نابالغ بچے کے لیے جو کپڑے  رشتہ داروں  کی  طرف سے آتے ہیں یا وہ کپڑے  جو والدین  نے نابالغ بچے کے لیے بنائے ہوں یا خرید  کر بچے کومالکانہ طور پر پہنادیے ہوں وہ بچے کی ملکیت  ہوجاتے ہیں ،ا ب والدین  یا کسی اورکو یہ اختیار نہیں ہے  کہ اس میں کوئی تصرف   کریں ، بلکہ جب  تک وہ کپڑے بچے کے استعمال میں لائے جاسکتے ہوں اسی کو  پہنا نا ضروری ہے، اور جب   بچے کے استعمال کے قابل نہ رہیں تو ا س کا حل یہ ہے کہ ان کپڑوں کی مناسبت سے قیمت لگاکر والدین وہ کپڑے خرید لیں اور رقم بچے کی ضروریات میں صرف کردیں ۔ا س کے بعد والدین  وہ  کپڑے  کسی اورکوبھی دے سکتے ہیں ۔

اس لیے والدین کو چاہیے کہ نابالغ اولاد کے لیے عام استعمال کی چیزیں خرید کر انہیں مالکانہ طور پر نہ دیں بلکہ اپنی ملکیت  میں رکھ کر بچوں کو صرف استعمال کی غرض سے دیں ، تاکہ بوقت  ضرورت والدین  خود بھی اس کا استعمال کرسکیں ،ا ور اگر  کسی اور کو دینا چاہیں تو دے سکیں ۔

  • جی ہاں ! عیدی وغیرہ کے نام پر نابالغ بچوں کو ملنے والی رقوم بھی بچوں کی ملک ہیں ، جسے بچوں کی ضروریات  میں  خرچ کرنا ضروری ہے ، والدین  یا کسی  بھی شخص کے لیے  ان رقوم کو اپنے ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں  ہےا سی طرح  ان رقوم  سے بچوں کی ضرورت  کی جو چیزیں  مثلا کھلونے وغیرہ خرید ی جائیں  وہ بچوں کی ملک ہوں  گی اور  ان کا حکم وہی ہے جو نمبر 3، 4) میں بیان ہوا ۔

واللہ سبحانہ وتعالیٰ  اعلم

 محمد طیب رشید عفی عنہ

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/539124759790107/

اپنا تبصرہ بھیجیں